سعودی عرب میں دستکاری کے شعبے کو ایک نئی زندگی مل رہی ہے، اور اس کی تازہ ترین مثال وہ تحریک ہے جو تین بہنوں کی لگن، جذبے اور خلوص سے جنم لے کر اب قومی شناخت کی علامت بنتی جا رہی ہے۔
ان خواتین کی کہانی نہ صرف اس ہنر کی خوبصورتی کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ بھی دکھاتی ہے کہ کس طرح محدود وسائل اور معلومات کے باوجود جذبہ اور عزم کسی بھی خواب کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
شیخہ العبدالکریم اور ان کی دو بہنوں نے صرف تجسس کے تحت ظروف سازی سیکھنے کا ارادہ کیا، مگر وقت کے ساتھ یہ دلچسپی ایک ثقافتی مشن کی صورت اختیار کر گئی۔
وہ ایک ایسے گھرانے میں پلی بڑھی تھیں جہاں ثقافت اور روایات روزمرہ زندگی کا حصہ تھیں۔ اسی ماحول نے ان کے اندر ہنر سے جڑنے اور پرانی روایات کو نئی نسل تک منتقل کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔
جب ان تینوں نے 2016 کے اختتام پر ظروف سازی میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش شروع کی، تو مقامی سطح پر مناسب وسائل اور رہنمائی کا شدید فقدان تھا۔
انہیں کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جو انہیں اس ہنر کی باریکیوں سے روشناس کرا سکے۔ بالآخر، ان کی ملاقات ایک ایسے ماہر سے ہوئی جو امریکہ اور ڈنمارک کی دہری شہریت رکھتے تھے اور جن سے ان کا رابطہ آن لائن ہوا۔
یہی لمحہ ان کے خواب کی بنیاد بنا، کیونکہ اس تربیت نے انہیں نہ صرف ہنر سکھایا بلکہ وژن بھی دیا کہ وہ خود دوسروں کو سکھانے کا مرکز بن سکتی ہیں۔
اسی خواب نے ’حرفہ‘ کو جنم دیا — ایک ایسا منصوبہ جو نہ صرف ظروف سازی کے قدیم فن کو زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ اسے آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک تجرباتی اور تعلیمی میدان بنا رہا ہے۔
’حرفہ‘ میں آنے والے افراد کو نہ صرف خود یہ فن آزمانے کا موقع ملتا ہے بلکہ وہ مختلف تربیتی سیشنز اور ورکشاپس کے ذریعے اسے پیشہ ورانہ مہارت کی سطح پر بھی سیکھ سکتے ہیں۔
ابتدا میں ان تینوں بہنوں کے پاس نا تو جدید اوزار تھے، نا ہی کوئی واضح رہنمائی۔ ان کے پاس صرف خلوصِ نیت، لگن اور وہ ثقافتی تربیت تھی جو انھیں ان کے خاندانی پس منظر سے ملی تھی۔ ان کے مطابق، وسائل کی کمی اور راستے کی رکاوٹیں ہی ان کی ہمت کا اصل محرک بن گئیں۔
سعودی کلچرل ڈیولپمنٹ فنڈ نے 2021 میں ان کے منصوبے کو وہ پہلا بڑا سہارا دیا جس کی انہیں اشد ضرورت تھی۔
فنڈنگ، پیشہ ورانہ رہنمائی اور حکومتی سرپرستی نے انہیں مشرقی سعودی عرب میں اپنی ورکشاپ قائم کرنے، جدید اوزار خریدنے اور منظم تربیتی پروگرام شروع کرنے کی سہولت دی۔
اس تعاون نے نہ صرف ان کا حوصلہ بڑھایا بلکہ انہیں یہ یقین بھی دلایا کہ وہ اپنے خواب کو وسیع تر سطح پر حقیقت میں بدل سکتی ہیں۔
شیخہ العبدالکریم کہتی ہیں کہ "ہمیں احساس ہوا کہ ظروف سازی صرف ایک مشغلہ نہیں بلکہ ایک داخلی سکون، صبر، استقامت اور مٹی سے جڑت کا ذریعہ ہے۔
یہ ہمیں ہماری تہذیبی جڑوں سے جوڑتا ہے۔” وہ چاہتی ہیں کہ ’حرفہ‘ کو مملکت کے مختلف شہروں اور ثقافتی طبقات تک لے جایا جائے تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ سعودی ہاتھوں سے کس قدر خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔
آج ’حرفہ‘ صرف ایک کاروبار یا تربیتی ادارہ نہیں بلکہ ایک تحریک بن چکا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں لوگ بصری معذوری کے باوجود بھی سیکھ سکتے ہیں، جہاں ہر عمر، ہر طبقے اور ہر پس منظر کے لوگ آ کر اپنے تخلیقی جذبات کو عملی صورت دے سکتے ہیں۔ یہ جگہ روایتی ڈیزائن اور جدید جمالیات کے حسین امتزاج کا مظہر ہے۔
سعودی عرب نے 2025 کو باضابطہ طور پر ’دستکاری کا سال‘ قرار دیا ہے، جس سے اس فن کو مزید فروغ دینے کے لیے متعدد تقریبات، میلوں اور فیسٹیولز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس قومی اقدام نے مقامی سطح پر موجود انفرادی کوششوں کو ایک بڑے پلیٹ فارم سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، اور ’حرفہ‘ جیسی کوششیں اب اس قومی وژن کا حصہ بن چکی ہیں۔
’ویژن 2030‘ کے تحت، سعودی حکومت تخلیقی، ثقافتی اور ہنر سے وابستہ کاروباری منصوبوں کی بھرپور سرپرستی کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف قومی ورثے کے تحفظ کی ضمانت ہے بلکہ اسے ایک معاشی ذریعہ بنا کر سعودی معیشت کو متنوع بنانے کی سمت میں بھی ایک اہم قدم ہے۔
یہ کہانی صرف ظروف سازی کی نہیں، بلکہ ایک خواب، ایک مشن، اور اس یقین کی ہے کہ مٹی، ہنر، اور لگن سے ایک نئی دنیا تخلیق کی جا سکتی ہے — ایک ایسی دنیا جس میں تاریخ، ثقافت، اور معیشت ایک ہی دھاگے سے جُڑی ہو۔