نیویارک/لندن:اپنے باغیانہ انداز، گرائم اور پنک راک کے منفرد امتزاج، اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے مشہور بینڈ باب وائلن کو حالیہ دنوں ایک نئے سیاسی تنازع کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بینڈ کے کچھ ارکان کے امریکی ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں، جس کے بعد ان کا نومبر میں ہونے والا مجوزہ امریکہ ٹور خطرے میں پڑ گیا ہے۔
باب وائلن، جو کہ نسل پرستی، ہم جنس پرستی مخالف رویوں اور طبقاتی فرق جیسے حساس موضوعات پر موسیقی کے ذریعے احتجاج کرتے ہیں، ماضی میں فلسطینی عوام کے لیے بھی اپنی حمایت کا اظہار کر چکے ہیں۔ اسی پس منظر میں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ویزا منسوخی نے بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کر لی ہے۔
بینڈ کے مرکزی گلوکار، جنہیں اسٹیج پر ’بابی وائلن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے انسٹاگرام پر ایک جارحانہ اور بےباک پوسٹ میں اس فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے لکھا میں نے جو کہا، وہی کہا۔ اپنے بچوں کو یہ سکھانا کہ وہ تبدیلی کے لیے آواز اٹھائیں، یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم دنیا کو بہتر بنا سکتے ہیں
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیَمی بروس نے اس فیصلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام امریکہ میں داخلے کے معیارات سے جڑا ہوا ہے، اور یہ فیصلہ کسی کے خیالات یا موسیقی کے مواد کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قومی سلامتی، تشدد کے خطرات، اور سامیت مخالف بیانیے کے ممکنہ اضافے جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہر خودمختار ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون اس کے ملک میں داخل ہو سکتا ہے۔ یہ بات اس بات پر نہیں ہے کہ وہ کیا گا رہے ہیں، بلکہ یہ ہماری سلامتی، پُرامن ماحول اور معاشرتی تحفظ کے معیارات سے متعلق ہے۔
اس واقعے نے بین الاقوامی فنکاروں اور انسانی حقوق کے حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا آزادیٔ اظہار کو قومی سلامتی کے نام پر محدود کیا جا سکتا ہے؟ یا یہ فیصلہ سیاسی دباؤ اور فلسطینی حمایت کی سزا ہے؟