سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ کے قریب واقع متعدد قدیم سمندری غاریں، آج کل غوطہ خوری اور آبی مہم جوئی کے شوقین افراد کی خاص توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
یہ غاریں نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہیں بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی سمندری حیات کی رنگارنگ دنیا بھی سیاحوں اور ماہر غوطہ خوروں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔
ان میں سے سب سے معروف مقام "ابو مدافع” کے نام سے جانا جاتا ہے، جو جدہ کے شمال میں واقع ہے اور کشتی کے ذریعے تقریباً 30 منٹ کی مسافت پر پہنچا جا سکتا ہے۔
ابو مدافع کی یہ سمندری غاریں صاف شفاف پانی، مونگے کی چمکدار چٹانوں اور غیرمعمولی گہرائی کی وجہ سے منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ یہاں کا نیلا پانی اور پانی کے نیچے موجود رنگ برنگے پتھریلے راستے، قدرتی طور پر ایسے مناظر پیش کرتے ہیں جو کسی خواب جیسے معلوم ہوتے ہیں۔
غاروں میں داخلے کے لیے جو تنگ اور پرپیچ راستے ہیں، وہی ان کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ انہی راستوں میں سفر کرتے ہوئے غوطہ خوروں کو سمندری دنیا کے نایاب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
یہ غاریں تقریباً 60 میٹر تک گہری ہو سکتی ہیں، اور ان کی تہوں میں مرجان سے ڈھکی ہوئی چٹانیں نہایت دلفریب منظر پیش کرتی ہیں۔ یہاں نہ صرف ٹونا مچھلی کی بڑی تعداد دیکھی جا سکتی ہے بلکہ دیگر نایاب اور رنگ برنگی مچھلیاں اور آبی جاندار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، جو عام طور پر سطح سمندر کے قریب دکھائی نہیں دیتے۔
بحیرۂ احمر میں واقع ان غاروں میں موجود سمندری حیات اور آبی پودوں کا حسین امتزاج ایک ایسا متوازن ماحولی نظام تشکیل دیتا ہے جسے قریب سے دیکھنا کسی نعمت سے کم نہیں۔
سمندر کی سطح پر لہروں کی شدت عام طور پر معتدل رہتی ہے، جس کی وجہ سے ان غاروں تک رسائی نہایت آسان ہو جاتی ہے۔
اس سہولت نے ان مقامات کو پیشہ ور اور شوقیہ غوطہ خوروں کے لیے انتہائی پرکشش بنا دیا ہے۔ کئی سیاح اور ماہرینِ ماحولیات یہاں کے قدرتی آبی مناظر کو نہ صرف دیکھنے بلکہ محفوظ کرنے کے لیے بھی آتے ہیں، تاکہ یہ نایاب ورثہ آئندہ نسلوں تک منتقل ہو سکے۔
ان غاروں کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ یہاں قدرتی ماحول اس قدر متوازن ہے کہ مختلف اقسام کی نباتات اور آبی جانور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابو مدافع جیسے مقامات نہ صرف سیاحت کے لیے اہم ہیں بلکہ سمندری تحقیق اور ماحولیاتی مطالعات کے لیے بھی غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں۔
یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کی یہ قدیم سمندری غاریں، خاص طور پر ابو مدافع، صرف غوطہ خوروں کے لیے ایک مہم جو تجربہ نہیں بلکہ ایک تعلیمی، ماحولیاتی اور قدرتی شاہکار ہیں جنہیں دیکھنے ہر سال ہزاروں افراد آتے ہیں۔ یہ علاقے نہ صرف سعودی عرب کی سیاحتی ترقی کی مثال ہیں بلکہ دنیا بھر کے قدرتی ماہرین کے لیے کشش کا باعث بھی بن چکے ہیں۔