یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین نے ایک بڑی دفاعی پیش رفت کرتے ہوئے امریکی کمپنی "سویفٹ بیٹ” کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کر لیا ہے، جس کے تحت 2025 کے دوران لاکھوں ڈرون طیارے تیار کیے جائیں گے۔ زیلینسکی نے ڈنمارک کے دورے کے دوران سوشل میڈیا پر پیغام دیتے ہوئے کہا کہ یہ ڈرونز نہ صرف دفاعی بلکہ جارحانہ مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جائیں گے۔
صدر زیلینسکی کے مطابق، یہ معاہدہ جدید جنگی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر دشمن کے ڈرونز اور میزائلوں کو تباہ کرنے والے ہتھیاروں، چار پنکھوں والے جاسوسی ڈرونز، اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے اٹیک ڈرونز کی تیاری پر مشتمل ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ: "یہ تعداد وقت کے ساتھ مزید بڑھے گی، اور یوکرین جدید جنگی ٹیکنالوجی میں خودکفالت کی جانب بڑھ رہا ہے۔”
دوسری جانب امریکہ میں ایک بڑی پالیسی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان شان بارنیل نے تصدیق کی ہے کہ صدر جو بائیڈن کے دور میں یوکرین کو اسلحے کی فراہمی بغیر کسی واضح تجزیے کے کی گئی، تاہم صدر ٹرمپ کی واپسی کے بعد اس پالیسی میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔
ہم نے سابقہ حکومت میں اسلحہ بغیر سوچے سمجھے بھیجا، لیکن اب ہم ہر ترسیل سے پہلے اس بات کا حساب لگا رہے ہیں کہ ہمارے اپنے قومی مفادات پر کیا اثر پڑے گا۔”
پینٹاگون اب اسلحے کی فراہمی سے قبل ایک جامع تجزیاتی عمل انجام دے رہا ہے تاکہ امریکی ذخائر، ضروریات اور عالمی توازن کا بھرپور خیال رکھا جا سکے۔امریکی جریدے "پولیٹیکو” کی رپورٹ کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع نے جون 2025 میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ یوکرین کو فضائی دفاعی میزائلوں اور دیگر حساس گولہ بارود کی کچھ کھیپیں روک دی جائیں گی۔ اب اس فیصلے پر عملی طور پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی نائب ترجمان آنا کیلی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ امریکی قومی سلامتی کے پیش نظر کیا گیا۔ ہماری ترجیح اپنے اسٹریٹجک ذخائر کی حفاظت اور امریکی مفادات کو اولیت دینا ہے۔”
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یوکرین کی یہ نئی حکمت عملی اسے ڈرون وار فیئر میں آگے لے جا سکتی ہے، جہاں کم لاگت اور زیادہ تباہی کے اصول پر جنگ لڑی جاتی ہے۔ لاکھوں ڈرونز کی تیاری ایک ایسا موڑ ثابت ہو سکتی ہے جس سے روایتی جنگی اسلحے کی اہمیت کم ہو جائے گی۔
امریکی انتظامیہ نے اس موقع پر واضح کیا کہ اگرچہ اسلحے کی فراہمی محدود کی جا رہی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ کی فوجی طاقت یا اس کی عالمی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ "ہم صرف پالیسی کو توازن دے رہے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی بڑے بحران کا سامنا نہ ہو