پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا حالیہ سیزن جہاں ایک طرف چند اچھی پرفارمنسز، نئی صلاحیتوں کے ابھرنے اور انتظامی کوششوں کا عکاس رہا، وہیں دوسری طرف لیگ کے کچھ انتظامی، تجارتی اور ساختی مسائل ایک بار پھر مرکزِ توجہ بن گئے،اس بار آواز بلند کی ہے ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے، جو سوشل میڈیا پر ایک شدید تنقیدی پوسٹ کے ذریعے میدان میں اترے۔
معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پی ایس ایل کے سرکاری پلیٹ فارم "ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایچ بی ایل پی ایس ایل نے مسلسل کامیابیاں سمیٹی ہیں اور اسٹیک ہولڈرز اس پیش رفت سے مطمئن ہیں۔
اسی پوسٹ پر علی ترین نے طنزیہ لہجے میں سوال داغا اورانہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پی ایس ایل کی گرتی ہوئی ناظرین کی تعداد، اسٹیڈیمز میں خالی نشستیں، سوشل میڈیا پر کمزور انگیجمنٹ، اور ناقص مارکیٹنگ حکمت عملی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیگ کا فین بیس تیزی سے غیر متعلق ہو رہا ہے، جو کسی بھی کامیاب برانڈ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
علی ترین نے خاص طور پر لیگ کے ڈرافٹ سسٹم کو "مضحکہ خیز” اور ٹیموں کی انتظامی صورتحال کو "بدنظمی کا شکار” قرار دیا۔ ان کے مطابق نہ صرف لیگ کا اندرونی نظم و نسق غیر مؤثر ہے، بلکہ فیصلہ سازی بھی غیر شفاف ہو چکی ہے، جس سے ٹیموں کی کارکردگی اور لیگ کی مجموعی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ یہ وقت جشن کا نہیں بلکہ خوداحتسابی اور سنجیدہ جائزے کا ہے۔ شائقین سب دیکھ رہے ہیں، اور خاموش نہیں رہیں گے
علی ترین کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لیگ میں بظاہر دکھائی جانے والی "کامیابی” دراصل کئی سنگین چیلنجز سے چھپی ہوئی ہے جنہیں اگر نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں پی ایس ایل کی مقبولیت اور ساکھ کو سخت دھچکا لگ سکتا ہے۔
علی ترین جیسے اسٹیک ہولڈر کی آواز کو نظر انداز کرنا لیگ کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایک ایسی لیگ جو ایک دہائی میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مقام بنانے میں کامیاب ہوئی، اگر اپنے اندر کی آوازوں پر کان نہیں دھرتی تو وہ عوامی اعتماد کھو سکتی ہے۔