امریکہ میں ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کے جاری بحران پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے مظلوم شہریوں کے لیے امن، سلامتی اور فوری ریلیف کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اپنے حالیہ بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ غزہ کے شہری مزید مشکلات اور بدامنی کا سامنا کریں، کیونکہ وہ پہلے ہی بے شمار مصیبتوں سے گزر چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یہ بات جمعرات کے روز اس وقت کہی جب وہ ایئر فورس بیس اینڈروز سے امریکی ریاست آئیووا کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ ایک صحافی نے ان سے غزہ کی صورتحال اور ممکنہ جنگ بندی سے متعلق سوال کیا، جس پر انہوں نے واضح انداز میں کہا:
"غزہ کے عوام کو اب امن چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ خود کو محفوظ محسوس کریں۔ یہی سب سے اہم بات ہے۔”
ٹرمپ نے اس موقع پر اس بات پر زور دیا کہ غزہ کے لوگوں نے ایک لمبا، تکلیف دہ اور خطرناک دور گزارا ہے، اور اب وقت آ چکا ہے کہ انہیں سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا جائے۔ ان کے مطابق، شہری آبادی کو تحفظ دینا کسی بھی جنگ بندی کی بنیادی شرط ہونی چاہیے۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آیا فلسطینی تنظیم حماس نے موجودہ جنگ بندی منصوبے پر رضامندی ظاہر کی ہے یا نہیں، تو صدر کا جواب تھا:
"ہمیں آئندہ 24 گھنٹوں کے اندر اس کا پتہ چل جائے گا۔”
انہوں نے یہ بات کسی حتمی موقف کے بجائے احتیاط سے کہی، لیکن اس بات کا اشارہ ضرور دیا کہ مذاکراتی عمل کسی اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
ادھر اسرائیلی ذرائع ابلاغ، خصوصاً چینل 11، نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے ملک کے ان شہریوں کے خاندانوں کو مطلع کیا ہے جن کے عزیز غزہ میں قیدی ہیں، کہ انہوں نے قیدیوں کے تبادلے پر مبنی 60 دن کی عارضی جنگ بندی کے منصوبے کو اصولی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔
نیتن یاہو کے بقول، اب اسرائیلی حکومت حماس کے باضابطہ جواب کی منتظر ہے تاکہ فریقین کے درمیان حتمی معاہدے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، امکان ہے کہ حماس اگلے چند گھنٹوں میں اپنا موقف واضح کر دے گی۔
دوسری جانب، امریکی صدر جو بائیڈن کی قیادت میں وائٹ ہاؤس کی ٹیم بھی فعال ہو چکی ہے، اور اطلاعات کے مطابق، آئندہ ہفتے وہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی واشنگٹن آمد کی میزبانی کریں گے۔ اس مجوزہ ملاقات کا مقصد اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا، اور ایک دیرپا اور بامعنی معاہدے کی راہ نکالنا ہے۔
امریکی انتظامیہ کو امید ہے کہ دونوں فریقوں — اسرائیل اور حماس — کے درمیان ہونے والے کسی بھی ممکنہ معاہدے سے غزہ میں جاری انسانی بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس وقت غزہ کی صورتحال بدترین انسانی سانحے کا منظر پیش کر رہی ہے، جہاں نہ صرف بنیادی سہولیات کا فقدان ہے بلکہ مسلسل بمباری سے شہری ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صدر ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس دونوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ خطے میں امن کی بحالی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کو تیار ہے، بشرطیکہ تمام فریق خلوص نیت سے امن کی راہ اپنانا چاہیں۔