نئی دہلی: بھارت کے ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ پاک-بھارت جھڑپوں کے دوران چین نے پاکستان کو بھارت کے دفاعی ٹھکانوں کے بارے میں "لائیو اِن پُٹس” فراہم کیے۔ جنرل سنگھ کے مطابق یہ معلومات اتنی تفصیلی تھیں کہ پاکستانی حکام بھارتی دفاعی تیاریوں سے لمحہ بہ لمحہ باخبر تھے۔ جنرل سنگھ کا کہنا تھا، ’’ہم نے دو محاذوں پر جنگ لڑی؛ ایک محاذ پر پاکستان تھا، اور دوسرے پر چین اس کی پشت پر کھڑا تھا۔‘‘
یہ دعویٰ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب مئی میں ہونے والی چار روزہ مہلک جھڑپوں کو دہائیوں کی بدترین محاذ آرائی قرار دیا گیا ہے۔ میزائل، ڈرونز اور زمینی حملوں کے تبادلوں نے خطے میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ ان جھڑپوں کی ابتدا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہندو سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد ہوئی تھی، جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کیا، تاہم پاکستان نے سختی سے اس کی تردید کی۔
لیفٹیننٹ جنرل سنگھ نے مزید کہا کہ چین کی جانب سے یہ تعاون پاکستان کو اس وقت مل رہا تھا جب دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان رابطہ جاری تھا۔ تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ بھارت کو چین اور پاکستان کے اس مبینہ تعاون کی معلومات کیسے ملیں۔
دوسری جانب چین اور پاکستان کی متعلقہ وزارتوں اور فوجی حکام نے اس انکشاف پر کوئی فوری ردعمل نہیں دیا۔ بیجنگ ماضی میں جنگ بندی کی حمایت اور پاکستان کی خودمختاری کے دفاع کا اعلان کر چکا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل سنگھ نے ترکی کو بھی اس تعاون کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انقرہ نے پاکستان کو نہ صرف جدید بیرکتار ڈرون فراہم کیے بلکہ تربیت یافتہ افراد اور دیگر جنگی وسائل بھی مہیا کیے۔ یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت اور ترکی کے تعلقات میں پہلے ہی تناؤ موجود ہے، اور بھارت میں ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی دیکھی گئی ہے۔
اگرچہ بھارت نے ماضی میں چین کی براہِ راست فوجی شمولیت سے انکار کیا تھا، لیکن سیٹلائٹ ڈیٹا اور حساس معلومات کی ترسیل پر اب کھلے عام سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ یہ صورتحال خطے میں بڑی طاقتوں کے درمیان نئی صف بندی کی عکاسی کرتی ہے، جو جنوبی ایشیا کو مستقبل میں ایک نئے دفاعی و سفارتی چیلنج کی جانب دھکیل سکتی ہے۔