کراچی کے قدیم اور گنجان آباد علاقے لیاری میں گزشتہ روز پیش آنے والا سانحہ اس وقت مزید دردناک صورت اختیار کر گیا ہے ۔امدادی ٹیموں نے عمارت کے ملبے تلے سے ایک اور لاش برآمد کی، جس کے بعد جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 16 تک جا پہنچی۔ جمعے کے روز گرنے والی پانچ منزلہ رہائشی عمارت نے پورے علاقے کو سوگوار کر دیا ہے، جبکہ متاثرہ خاندان تاحال اپنے پیاروں کی تلاش اور محفوظ بازیابی کے لیے دعاؤں میں مصروف ہیں۔
ریسکیو اداروں کا کہنا ہے کہ سرچ اور کلیئرنس آپریشن انتہائی احتیاط کے ساتھ جاری ہے کیونکہ ملبے تلے مزید افراد کے دبے ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
امدادی کارکنوں نے اتوار کو اب تک دو مزید لاشیں نکالی ہیں، جن میں ایک خاتون اور ایک مرد شامل ہیں۔ مجموعی طور پر جاں بحق ہونے والوں میں 10 مرد اور 6 خواتین شامل ہیں، جبکہ کئی افراد تاحال لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔
ڈپٹی کمشنر ساؤتھ، جاوید کھوسو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر ریسکیو آپریشن کو اگلے مرحلے میں داخل کر دیا گیا ہے، اور توقع ہے کہ مکمل طور پر ملبہ ہٹانے میں مزید 8 سے 10 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اب بھی اندازاً 10 سے 12 افراد ملبے تلے دبے ہو سکتے ہیں، جس سے جانی نقصان میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
اس المیے میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مذکورہ عمارت کو تین سال قبل متعلقہ اداروں کی جانب سے "غیر محفوظ” قرار دیا جا چکا تھا۔ جاوید کھوسو کے مطابق ڈیڑھ ماہ قبل اس عمارت کے مکینوں کو تحریری طور پر نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا، جس میں انہیں فوری طور پر عمارت خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ لیاری کے علاقے میں اب بھی 22 ایسی عمارتیں موجود ہیں جنہیں شدید خطرناک قرار دیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 16 عمارتیں خالی کروائی جا چکی ہیں جبکہ باقی کو خالی کروانے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔
ڈی سی ساؤتھ نے مزید وضاحت کی کہ کسی بھی عمارت کو خطرناک قرار دیے جانے کے بعد اس کے بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع کیے جاتے ہیں، اور اگر مکین عمارت کو خالی نہ کریں تو متعلقہ حکام کی جانب سے قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ تاہم، عمارتوں کی زبوں حالی کے باوجود بعض رہائشی مجبوراً وہاں مقیم رہتے ہیں، جو آخرکار ایسے ہی سانحات کا باعث بنتے ہیں۔
علاقے کے ایک متاثرہ فرد، جو گرنے والی عمارت کی مالکن خاتون کے بھتیجے ہیں، نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمارت میں پانچ منزلیں تھیں اور ہر منزل پر تین تین پورشن موجود تھے۔
ان کے مطابق جب بھی وہ عمارت آتے، وہ مکمل طور پر مکینوں سے بھری ہوتی۔ ان کے خاندان کے افراد چوتھی منزل پر رہائش پذیر تھے۔ حادثے کے وقت ان کی پھوپھی شدید زخمی حالت میں نکالی گئیں، ان کا بیٹا جانبر نہ ہو سکا، جبکہ تین رشتہ دار تاحال لاپتہ ہیں۔
واضح رہے کہ یہ سانحہ لیاری کے بغدادی محلے میں پیش آیا، جہاں یہ مخدوش رہائشی عمارت زمین بوس ہو گئی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق عمارت میں چھ خاندان آباد تھے۔ مقامی افراد کے مطابق کئی بار شکایات کے باوجود انتظامیہ نے مؤثر کارروائی نہیں کی، جس کے باعث یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا۔
یہ واقعہ نہ صرف انتظامی ناکامی کا مظہر ہے بلکہ شہر میں بڑھتی ہوئی رہائشی مشکلات، بڑھتی آبادی اور عمارتوں کی مخدوش حالت کا ایک اور افسوسناک ثبوت بھی ہے۔ شہریوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دیگر خطرناک عمارتوں کو فوری طور پر خالی کرایا جائے اور مستقل رہائش کے لیے حکومتی سطح پر کوئی مؤثر حل نکالا جائے تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔
اس وقت شہر کی نظریں لیاری کے ملبے پر جمی ہوئی ہیں، جہاں ہر گھنٹہ کسی نئی خبر کے ساتھ مزید غم اورصدمے کے لمحات لاتا ہے۔