سعودی عرب نے ایک بار پھر غزہ میں جاری خونریزی پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ علاقے میں پائیدار اور فوری جنگ بندی ہی اُس کی بنیادی خارجہ پالیسی کا مرکز ہے۔
اس مؤقف کا اعادہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں کیا، جہاں وہ سرکاری دورے پر موجود ہیں۔
ماسکو میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب اس وقت مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کو اولین ترجیح دے رہا ہے، اور خاص طور پر فلسطین کے مسئلے کو دیرپا حل کے بغیر کسی اور راستے کو قابلِ قبول نہیں سمجھتا۔
ان کا کہنا تھا، "ہم دنیا کے سامنے یہ واضح کرتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نہتے شہریوں پر کیے جانے والے مظالم کی کوئی اخلاقی، قانونی یا انسانی جواز باقی نہیں رہا۔ یہ جارحیت بند ہونی چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کا بنیادی مؤقف یہی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق نہیں ملتا اور ایک آزاد ریاست کے قیام کی ضمانت فراہم نہیں کی جاتی۔
یاد رہے کہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اسی مؤقف کا اعادہ سال 2024 کے دوران بھی کیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا معاملہ فلسطین کے حتمی اور منصفانہ حل کے بغیر آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
اس صورتحال کے تناظر میں بین الاقوامی سطح پر بھی سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان مجوزہ جنگ بندی منصوبے پر حماس جلد مثبت ردعمل دے گی۔
ان کے مطابق فریقین کے درمیان جاری اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایک ’حتمی تجویز‘ تیار کی جا چکی ہے، جس پر دونوں فریقوں کے جواب کا شدت سے انتظار ہے۔
دوسری جانب حماس نے اپنے مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کے منصوبے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، لیکن ساتھ ہی اُس نے کچھ بنیادی ضمانتوں کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اگر 60 روز کی عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہوتا ہے تو اس مدت کے دوران نہ صرف جنگ مکمل طور پر روکی جائے، بلکہ دونوں فریقین کے درمیان مستقل جنگ کے خاتمے اور ایک دیرپا امن معاہدے کے لیے باضابطہ مذاکرات بھی شروع کیے جائیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال کو انسانی بحران میں شمار کیا جا رہا ہے۔ وہاں کی وزارتِ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والے اسرائیلی آپریشن میں اب تک 57 ہزار سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی حکام نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں اسرائیل کے 1200 شہری مارے گئے تھے، جب کہ 250 سے زیادہ افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، جن میں اسرائیلی فوجی، شہری اور غیر ملکی افراد بھی شامل تھے۔
یہی وہ واقعہ تھا جس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر زمینی اور فضائی کارروائیاں شروع کیں، جن کے باعث نہ صرف انفراسٹرکچر تباہ ہوا بلکہ لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل ہونے پر مجبور ہو گئے۔
سعودی عرب کا مؤقف اس تمام تر پس منظر میں دوٹوک اور واضح ہے: مسئلہ فلسطین کا حل صرف اور صرف انصاف، خودمختاری اور فلسطینی ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔ اس وقت تک کسی بھی قسم کے معمول کے تعلقات کی بات بے معنی ہو گی۔