سعودی عرب میں مصنوعی ذہانت کو معاشرے کا حصہ بنانے اور نئی نسل کو اس جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناس کرانے کے لیے ایک جامع حکومتی پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔
سعودی ڈیٹا اینڈ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اتھارٹی، جسے اختصاراً سدایا (SDAIA) کہا جاتا ہے، نے اعلان کیا ہے کہ اب تک ملک بھر سے تین لاکھ چونتیس ہزار سے زائد افراد اس پروگرام سے استفادہ حاصل کر چکے ہیں۔
یہ شاندار پروگرام "مصنوعی ذہانت میں ایک ملین سعودی” کے عنوان سے ستمبر 2024 میں باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سعودی شہریوں، بالخصوص نوجوانوں، کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مہارتیں سکھا کر اُنہیں مستقبل کی ڈیجیٹل دنیا میں ایک فعال، بااعتماد اور بااختیار کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔
اس پروگرام میں وزارتِ تعلیم اور وزارتِ انسانی وسائل و سماجی ترقی جیسے اہم ادارے سدایا کے ساتھ قریبی اشتراک کر رہے ہیں۔
ریاض میں منعقدہ "نان پرافٹ فورم ان ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ 2025” کے دوران سدایا کے سربراہ عبداللہ الغامدی نے اس پروگرام پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مملکت میں مصنوعی ذہانت کے فروغ کے لیے کیے جانے والے اقدامات نہ صرف قومی سطح پر انقلابی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ عالمی منظرنامے میں بھی سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے کردار کی گواہی دے رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سدایا کی کوششوں کے نتیجے میں مختلف قومی نوعیت کے پروگرامز سامنے آئے ہیں جنہوں نے لاکھوں طلبہ اور اساتذہ کو جدید علوم سے روشناس کیا ہے۔
خاص طور پر "نیشنل اولمپیڈ فار پروگرامنگ اینڈ آرٹیفیشل انٹیلیجنس” اور "ATHKA کمپیٹیشن” جیسے اقدامات نے تعلیمی میدان میں نئی جہتیں متعارف کروائی ہیں۔ اس اولمپیاد میں ملک بھر کے دو لاکھ ساٹھ ہزار طلبہ نے حصہ لیا جن میں سے دس ہزار طلبہ اگلے مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
اسی طرح ایک اور کلیدی انیشی ایٹو "روڈ ٹو ATHKA” بھی خاصا مؤثر رہا، جس کے ذریعے پانچ لاکھ ستر ہزار سے زائد طلبہ کو مصنوعی ذہانت کے بنیادی نظریات اور عملی اطلاق پر تربیت دی گئی۔
الغامدی کے مطابق یہ صرف ایک تدریسی سرگرمی نہیں بلکہ ایک قومی مشن کا حصہ ہے جس کا مقصد ہر عمر اور پیشہ ورانہ میدان سے وابستہ افراد کو جدید ٹیکنالوجی میں خود کفیل بنانا ہے۔
سدایا کی جانب سے شروع کیے گئے ایک اور نمایاں پروگرام "مستقبل کے ذہین پروگرامرز” کے تحت دس ہزار اساتذہ کو جدید تدریسی اسلوب اور مصنوعی ذہانت کے انضمام پر خصوصی تربیت دی گئی، تاکہ وہ اپنی کلاس رومز میں نئی نسل کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ طریقے سے تعلیم دے سکیں۔
عبداللہ الغامدی نے زور دے کر کہا کہ سدایا اور وزارتِ تعلیم نے نہ صرف عملی منصوبے شروع کیے ہیں بلکہ انہوں نے "مرکز برائے تعلیمی شعبے میں شاندار کارکردگی” بھی قائم کیا ہے، جو کہ تعلیمی اداروں میں ٹیکنالوجی کی شمولیت کو منظم اور ادارہ جاتی سطح پر فروغ دینے کے لیے ایک بنیادی سنگِ میل ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہمارا مشن صرف یہ نہیں کہ طلبہ اور اساتذہ کو نئی مہارتیں سکھائی جائیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مصنوعی ذہانت کے ذریعے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا، ڈیٹا سے بھرپور فائدہ اٹھانا، اور پالیسی سازی میں ٹیکنالوجی کی مدد لینا بھی اہم اہداف میں شامل ہیں۔
"ایک ملین سعودی” پروگرام سعودی عرب کے اس وژن کا عملی ثبوت ہے جس میں ٹیکنالوجی کو معیشت، تعلیم اور معاشرے کی ترقی میں کلیدی حیثیت دی جا رہی ہے۔ سدایا کی کاوشیں نہ صرف نوجوانوں کو باصلاحیت بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں بلکہ یہ ایک ایسا ماڈل تشکیل دے رہی ہیں جس پر مستقبل کے کئی ممالک اعتماد کے ساتھ عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔