دمشق/لندن:ایک دہائی سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی بدترین خانہ جنگی، تباہ حال معیشت، لاکھوں بےگھر افراد اور عالمی تنہائی کے سائے میں گھرے شام کے لیے بالآخر سفارتی افق پر ایک نئی روشنی کی کرن نمودار ہوئی ہے۔ برطانیہ نے شام سے مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے، جسے عالمی سطح پر ایک اہم پیش رفت اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے دمشق کا تاریخی دورہ کیا اور شام کے عبوری صدر احمد الشراع سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات اس لیے بھی غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے کہ یہ دورہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد برطانوی حکومت کی طرف سے پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے ملاقات کے بعد جاری بیان میں کہا کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے خونی تنازعے کے بعد شامی عوام کو ایک نئی امید ملی ہے۔ برطانیہ کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ ہم نئی حکومت کے ساتھ مل کر شام کو ایک مستحکم، محفوظ اور خوشحال مستقبل کی جانب گامزن کرنے میں کردار ادا کریں۔
گزشتہ سال دسمبر میں شام میں اپوزیشن فورسز اور عوامی تحریکوں کی حمایت یافتہ افواج نے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کر دیا تھا، جس کے بعد ملک میں ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی، جس کی قیادت اب احمد الشراع کے پاس ہے۔ نئی حکومت نے سفارتی محاذ پر کئی مثبت اقدامات کیے، جن میں بین الاقوامی رابطوں کی بحالی اور تعمیر نو کے منصوبوں پر خصوصی توجہ شامل ہے۔
شامی صدارتی دفتر کے مطابق، ملاقات میں دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلقات کے فروغ، علاقائی سلامتی، اقتصادی تعاون اور شام کی جنگ زدہ معیشت کی بحالی کے لیے ممکنہ تعاون پر تفصیل سے بات کی۔
برطانیہ کی جانب سے یہ فیصلہ اچانک نہیں آیا، بلکہ گزشتہ چند مہینوں سے سفارتی روابط کی بحالی کی علامات واضح تھیں۔ مئی میں شام کے وزیرِ دفاع مرحف ابو قصرہ نے برطانوی وفد سے ملاقات کی تھی۔ اپریل میں برطانوی حکومت نے بشار الاسد کے دور میں لگائی گئی پابندیوں میں نرمی کرتے ہوئے شام کی وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع کو بلیک لسٹ سے نکال دیا تھا۔
جون میں برطانیہ نے مزید قدم بڑھاتے ہوئے شام کے 24 قومی اداروں پر سے پابندیاں ختم کر دیں، جن میں شامی مرکزی بینک بھی شامل ہے۔ شام نے ان اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلے جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو، سرمایہ کاری کی بحالی اور اقتصادی ترقی میں سنگِ میل ثابت ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا یہ اقدام نہ صرف خطے میں امن کی کوششوں کو جِلا بخشے گا بلکہ مغرب اور مشرقِ وسطیٰ کے تعلقات میں ایک نئے توازن کی بنیاد رکھے گا۔ تاہم بعض حلقے اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا یہ سفارتی قربت صرف اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے ہے یا واقعی شام کے عوام کی بہتری کے لیے۔
شامی عوام کی نظریں مستقبل پر
شام کے شہری اس اعلان کو ملی جلی جذبات سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف امید ہے کہ برطانوی تعاون سے معیشت، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر جیسے شعبوں میں بہتری آئے گی، تو دوسری طرف خوف بھی ہے کہ کہیں عالمی طاقتیں ایک بار پھر اپنے مفادات کے لیے شام کی خودمختاری پر اثرانداز نہ ہوں۔