ریاض/ماسکو:سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ سعودی مملکت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے ماسکو میں روسی ہم منصب سے ملاقات کے دوران زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات تب تک معمول پر نہیں لائے جا سکتے جب تک فلسطین میں مستقل اور منصفانہ امن قائم نہ ہو جائے۔
شہزادہ فیصل نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ اور اس کے عام شہریوں کو کچل رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیرضروری ہے بلکہ مکمل طور پر ناقابل قبول بھی ہے۔ جنگ بند ہونی چاہیے، اور فوری انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا نفاذ لازم ہے۔
عرب اور اسلامی دنیا میں اس وقت سعودی عرب کا کردار ایک قائدانہ حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ شہزادہ فیصل کا ماسکو میں دیا گیا بیان نہ صرف خطے کے لیے بلکہ بین الاقوامی سفارت کاری کے لیے بھی ایک اہم اشارہ ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر پرزور انداز میں دہرایا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اور مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت تسلیم کرنا خطے میں امن کے لیے لازمی ہے۔ یہی وہ اصولی مؤقف ہے جس کی بنیاد پر سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی تمام تجاویز کو مشروط کر رکھا ہے۔
دوسری جانب غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں نے انسانی تباہی کو نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی کارروائیوں میں 57 ہزار سے زائد فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ان حملوں کے ردعمل میں حماس نے 60 روزہ مجوزہ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر ثالث ممالک سے ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے۔
حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ بندی کے دوران دوطرفہ مذاکرات جاری رہیں اور اگر کسی حتمی معاہدے پر نہ پہنچا جا سکے تو وقفے میں توسیع کی جائے تاکہ مزید خونریزی روکی جا سکے۔ اس وقت امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مجوزہ معاہدے کے حوالے سے امید کا اظہار کر چکے ہیں کہ فریقین جلد کسی "حتمی تجویز” پر رضامند ہو جائیں گے۔
اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے، جس کے بعد یہ شدید ردعمل سامنے آیا۔ تاہم عالمی سطح پر، خاص طور پر عرب دنیا اور اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے اسرائیل کے حملوں کو متناسب سے زیادہ اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کی پالیسی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ فلسطینی کاز پر کسی عالمی دباؤ یا وقتی مفادات کے تحت سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا۔ شہزادہ فیصل کا بیان اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ سعودی قیادت اب بھی اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے — کہ جب تک فلسطینیوں کو ان کا قانونی حق، اپنی ریاست کے قیام کی صورت میں، نہیں ملتا، اس وقت تک "نارملائزیشن” کی کوئی گنجائش نہیں۔