برازیل: حالیہ دنوں اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ حملوں کا سامنا کرنے والے ایران کوعالمی سطح پر ایک بڑی سفارتی حمایت حاصل ہوئی ہے، جب ابھرتی معیشتوں کے اتحاد ’برکس‘ نے ایک اہم اجلاس کے دوران ایران پر ہونے والے حملوں کی سخت مذمت کی ہے۔ برکس نے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان حملوں کو ناقابلِ قبول اور خطرناک قرار دیا ہے۔
اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے،ہم اسلامی جمہوریہ ایران پر 13 جون 2025 سے ہونے والے فوجی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، کیونکہ یہ حملے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اگرچہ بیان میں براہِ راست امریکہ اور اسرائیل کا نام نہیں لیا گیا، مگر بین السطور یہ واضح ہے کہ مذمت انہی طاقتوں کی جانب اشارہ کرتی ہے جنہوں نے حالیہ ہفتوں میں ایران کی جوہری تنصیبات اور عسکری اہداف کو نشانہ بنایا۔
اسی اعلامیے میں ’برکس‘ نے غزہ جنگ پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ثالثی کرنے والے ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کو ممکن بنائیں۔ اتحاد کا مطالبہ ہے کہ 22 ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ جلد از جلد ہونا چاہیے اور اسرائیلی افواج کو غزہ و دیگر مقبوضہ علاقوں سے واپس بلایا جائے۔
برکس نے کہا کہ جنگ سے اب تک 57,418 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں، خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے، جو کہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔برکس کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب دوحہ (قطر) میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے نیا مذاکراتی دور شروع ہونے والا ہے۔ برکس کی حمایت نے فلسطینی فریق کو نہ صرف سفارتی اعتماد دیا ہے بلکہ اس دباؤ میں بھی اضافہ کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل فوری حل کی طرف آئیں۔
ایران کو برکس کی طرف سے یہ حمایت ایسے وقت پر ملی ہے جب اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو آئندہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔ یہ ملاقات جنگ بندی اور ایران کے خلاف امریکی حکمتِ عملی کے حوالے سے نہایت اہم سمجھی جا رہی ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برکس، جس میں چین، روس، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ اور ایران جیسے ممالک شامل ہیں، اب صرف معاشی اتحاد نہیں بلکہ ایک نئی عالمی سفارتی قوت کے طور پر بھی ابھر رہا ہے۔