مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کے دوران اسرائیلی فوج نے پیر کے روز یمن میں ایران نواز حوثیوں کے ٹھکانوں پر ایک وسیع فضائی حملہ کیا، جسے خطے کی حالیہ تاریخ کا ایک سنگین موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس کارروائی میں 20 سے زائد جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور الحدیدہ، رأس عیسیٰ، الصلیف سمیت متعدد اہم بندرگاہوں پر 60 سے زیادہ بم گرائے گئے۔ حملوں کا بنیادی ہدف وہ بندرگاہیں اور تنصیبات تھیں جنہیں اسرائیل کے مطابق ایرانی ہتھیاروں کی منتقلی اور دشمنانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
اسرائیلی فورسز نے اس کارروائی میں ایک کار بردار بحری جہاز "گلیکسی لیڈر” کو بھی نشانہ بنایا جس پر حوثیوں نے نومبر 2023 میں قبضہ کیا تھا۔ فوجی بیان کے مطابق حوثیوں نے اس جہاز پر ایک ریڈار نظام نصب کیا تھا جو کہ بین الاقوامی جہازرانی پر نظر رکھنے کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ اسرائیل نے ان حملوں کو اپنی قومی سلامتی اور بحری تجارت کے تحفظ کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔
ادھر حوثیوں نے جوابی حملے میں اسرائیل پر میزائل داغنے کا دعویٰ کیا، جسے اسرائیلی دفاعی نظام نے ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگرچہ اس حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، لیکن یہ کشیدگی خطے میں کسی بھی وقت ایک اور جنگی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب بحیرہ احمر میں لائبیریا کے پرچم والے تجارتی جہاز "ماجک سیز” کو حملے کا نشانہ بنایا گیا، جس سے جہاز میں آگ لگ گئی اور وہ تباہ ہو گیا۔ اس واقعے کی بھی ذمہ داری بظاہر حوثیوں پر ڈالی گئی ہے، خاص طور پر جب رپورٹس میں بارودی ڈرونز اور راکٹ حملوں کا ذکر کیا گیا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات جاری ہیں، اور اسی تناظر میں ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں اور جوہری مذاکرات کی بحالی پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے ہیں، جو ممکنہ طور پر اس بحران کے اہم پہلوؤں پر تبادلہ خیال کریں گے۔