اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں ہونے والے اجلاس نے ایک بار پھر عوامی سطح پر بجلی کے نرخوں، چوری اور ناقص نظام کی سنگین حقیقتیں بے نقاب کر دیں۔ وفاقی وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری نے واضح کیا کہ "بجلی کی قیمتیں اس لیے زیادہ ہیں کیونکہ لوگ کم بجلی استعمال کرتے ہیں، ایک ایسا جملہ جس نے اجلاس میں موجود ارکان کو چونکا دیا اور عوامی غصے کی ترجمانی کرنے پر مجبور کر دیا۔
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بجلی کی مجموعی کھپت کم ہے، اور جب تک استعمال نہیں بڑھے گا، نرخ کم ہونے کی توقع عبث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور کچی آبادیوں میں جب تک باضابطہ طور پر کنیکشن کی ڈیمانڈ نہیں آتی، محکمہ بجلی فراہم نہیں کر سکتا اور یہی وہ جگہیں ہیں جہاں سب سے زیادہ "کنڈا کلچر” فروغ پا چکا ہے۔
اجلاس میں ارکان نے مہنگے بلوں، بجلی چوری اور غیرمنصفانہ بلنگ اسٹرکچر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ رکن قومی اسمبلی رانا سکندر حیات نے کہا کہ ایک میٹر پر 10 کنڈے لگے ہیں، اور بل ان صارفین پر پڑ رہا ہے جو ایمانداری سے ادائیگی کرتے ہیں۔
وزیر نے وضاحت دی کہ بجلی چوری کی سالانہ لاگت 500 ارب نہیں بلکہ 250 ارب روپے ہے، باقی رقم وہ ہے جو ریکور نہیں ہو پاتی۔
ایم این اے ملک انور تاج نے نشاندہی کی کہ صرف ایک یونٹ اضافے سے صارف اگلے چھ ماہ تک سبسڈی سے باہر ہو جاتا ہے اور بل 5 ہزار سے 15 ہزار پر چلا جاتا ہےجسے اجلاس میں غیرمنصفانہ قرار دیا گیا۔ کمیٹی نے بلنگ سلیب سسٹم کی اصلاح کی سفارش کی۔
پیسکو، حیسکو اور این ٹی ڈی سی حکام نے اجلاس میں بوسیدہ گرڈ اسٹیشنز، محدود جنریشن اور بار بار بلیک آؤٹس کی وجوہات بیان کیں۔ جامشورو گرڈ اسٹیشن پر انحصار نے 13 شہروں کو ہر فالٹ میں اندھیرے میں دھکیل دیا۔ وزیر توانائی نے متبادل گرڈ اسٹیشن کی رپورٹ طلب کر لی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں کا اصل مسئلہ عوام کے کم استعمال میں نہیں، بلکہ حکومتی پالیسیوں، چوری، ناقص ریکوری، اور منافع خوری میں پوشیدہ ہے۔ جب تک نظام میں شفافیت نہیں آئے گی، صرف بل دینے والا ہی پِسے گا۔