اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک اہم پیش رفت کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ چند دنوں میں ممکن ہو سکتا ہے، جس کے تحت 60 دن کی جنگ بندی عمل میں لائی جائے گی۔
اس ممکنہ جنگ بندی کے دوران پہلے مرحلے میں کچھ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا اور اس وقفے کو جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے مذاکرات میں استعمال کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اگر حماس ہتھیار ڈال دے تو جنگ فوراً ختم کی جا سکتی ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ جنگ کا اختتام صرف اسرائیلی شرائط پر ہوگا، جن میں حماس کی مکمل غیر مسلحی، غزہ کو غیر عسکری علاقہ بنانا اور حماس کی حکومت اور عسکری قوت کا خاتمہ شامل ہے۔
دوسری جانب حماس نے ایسے کسی بھی معاہدے کو مسترد کر دیا ہے جس میں اسرائیلی فوج کی غزہ میں بڑی موجودگی، امدادی سامان کی ترسیل میں رکاوٹ یا اسرائیلی قبضے کی پالیسی شامل ہو۔ حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم اپنی سرزمین پر قبضے کو تسلیم نہیں کریں گے اور اپنے عوام کو اسرائیلی کنٹرول میں نہیں چھوڑ سکتے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق امریکی حکومت، خاص طور پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ، نے عندیہ دیا ہے کہ 60 دن کی جنگ بندی کے بعد اسرائیل کو دوبارہ غزہ پر حملے کی اجازت نہیں دی جائے گی، حالانکہ یہ نکتہ موجودہ مجوزہ معاہدے میں شامل نہیں۔ نیتن یاہو نے اس خدشے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ماضی میں بھی کہا گیا کہ جنگ دوبارہ نہیں چھیڑی جا سکتی، مگر ہم نے کی، اور اگر اس بار بھی ضرورت پیش آئی تو جنگ دوبارہ شروع کریں گے۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ واپس لایا جائے، لیکن اس پر فیصلہ مکمل طور پر حماس کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 60 دن کے اس عرصے میں 10 زندہ اور 18 جاں بحق یرغمالیوں کی واپسی کی امید ہے، تاہم کن افراد کو پہلے رہا کیا جائے گا، یہ حتمی طور پر حماس طے کرے گی۔