اسلام آباد میں ایک اہم عدالتی فیصلہ سامنے آیا ہے جس نے دو معروف صحافیوں، مطیع اللہ جان اور اسد طور کے یوٹیوب چینلز پر لگائی گئی پابندی کو وقتی طور پر معطل کر دیا ہے۔ یہ پابندی چند روز قبل ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر لگائی گئی تھی، لیکن اب ایک ایڈیشنل سیشن جج نے اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
اسد طور اور مطیع اللہ جان کے وکیل، ایمان زینب مزاری، نے عدالت کو بتایا کہ اصل فیصلہ بغیر نوٹس دیے سنایا گیا تھا، یعنی جن لوگوں پر پابندی لگائی گئی اُنہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ کے پاس اس طرح کے حکم دینے کا اختیار بھی نہیں تھا۔ اب یہ معاملہ سیشن کورٹ میں چل رہا ہے اور اگلی سماعت 21 جولائی کو ہو گی۔
اصل کہانی کچھ یوں ہے کہ پاکستان کی ایف آئی اے (وفاقی تحقیقاتی ادارہ) نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ 27 یوٹیوب چینلز پر ریاستی اداروں اور اہم شخصیات کے خلاف گمراہ کن، توہین آمیز اور اشتعال انگیز مواد چلایا جا رہا ہے۔ اس بنیاد پر ایف آئی اے نے ان چینلز کو بند کرنے کی درخواست عدالت میں جمع کروائی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے ایف آئی اے کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد کو "اطمینان بخش” قرار دیا اور 8 جولائی کو اپنے تحریری فیصلے میں یوٹیوب کو ہدایت کی کہ ان تمام چینلز کو پاکستان میں فوری طور پر بند کر دیا جائے۔
عدالت نے اپنے دو صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا کہ اس مواد سے ریاستی سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد یوٹیوب نے ان 27 یوٹیوبرز کو اطلاع دی کہ عدالت کی ہدایت پر اُن کے چینلز کو بلاک کیا جا سکتا ہے۔ اس اعلان کے بعد صحافی برادری اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سخت ردِعمل دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے اور اس سے صرف ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حکومت یا ریاستی اداروں پر تنقید کرتی ہیں۔
پاکستان میں پہلے ہی ایسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں کہ حکومت، تنقید کرنے والے صحافیوں اور بلاگرز کو خاموش کرنے کے لیے میڈیا پر پابندیاں لگاتی ہے۔
اسی وجہ سے بہت سے ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں نے اس عدالتی فیصلے کو "خطرناک” قرار دیا اور کہا کہ اس سے پاکستان میں بولنے کی آزادی مزید محدود ہو جائے گی۔
ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے سے فی الحال مطیع اللہ جان اور اسد طور جیسے صحافیوں کو ریلیف ضرور ملا ہے، لیکن مسئلہ ابھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا۔
کیس کی کارروائی جاری ہے، اور عدالت نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں سنایا۔ البتہ اس فیصلے نے یہ ضرور واضح کیا ہے کہ بغیر کسی کو سنے، ایسی سخت پابندیاں لگانا قانونی طور پر ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔
پاکستان کا عدالتی نظام کئی درجوں پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے مقدمے سول یا جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں چلتے ہیں، پھر اپیل یا اعتراض کی صورت میں کیس سیشن کورٹ اور بعد ازاں ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔ اس کیس میں چونکہ ابتدائی فیصلہ ایک مجسٹریٹ نے دیا تھا، اس لیے اب سیشن کورٹ اس کا جائزہ لے رہی ہے۔