امریکہ کی ایک اپیل عدالت نے 9/11 حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کے ساتھ ہونے والے پلی بارگین معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا ہے، جو ان کی ممکنہ سزائے موت ختم کرنے کی راہ ہموار کر سکتا تھا۔ عدالت کے اس فیصلے نے مقدمے کی قانونی کارروائی کو ایک بار پھر نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ معاہدہ سابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی منظوری سے عمل میں آیا تھا، جس کا مقصد ان پیچیدہ مقدمات کو کسی انجام تک پہنچانا تھا جو گزشتہ دو دہائیوں سے التوا کا شکار ہیں۔
عدالت میں سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ لائیڈ آسٹن نے اپنے اختیارات کے دائرہ کار میں رہ کر معاہدہ منسوخ کیا، لہٰذا ان کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جج پیٹریشیا ملیٹ اور نیومی راؤ نے لکھا کہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسی حساس نوعیت کے مقدمات میں متاثرین، عوامی مفاد اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرے۔
یہ معاہدے 2023 میں منظرِ عام پر آئے تھے، جس کے تحت خالد شیخ محمد اور ان کے دو مبینہ ساتھیوں ولید بن عطاش اور مصطفیٰ الحساوی، جو اس وقت کیوبا کے گوانتانامو بے میں قید ہیں، سزائے موت سے بچ سکتے تھے بشرطیکہ وہ قصوروار مان لیں اور مزید تفتیشی تعاون فراہم کریں۔ تاہم ان معاہدوں پر نائن الیون کے متاثرین کے خاندانوں نے شدید ردِ عمل دیا اور انہیں "انصاف کی تضحیک” قرار دیا۔ وزیر دفاع نے صرف دو دن کے اندر ان معاہدوں کو واپس لے لیا، اور مؤقف اختیار کیا کہ اس نوعیت کے مقدمات کو عوامی عدالتی کارروائی کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔
فوجی جج نے نومبر 2024 میں ان معاہدوں کو درست قرار دیا تھا، مگر حکومت نے اس کے خلاف اپیل دائر کی، جس پر اپیل کورٹ نے جمعے کو فیصلہ دیتے ہوئے فوجی جج کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ عدالت نے مزید کہا کہ فوجی جج کو اس حوالے سے مزید کوئی کاروائی کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
یہ مقدمات ایک ایسے وقت میں دوبارہ سرگرم ہوئے ہیں جب سی آئی اے کے زیرِ حراست تشدد، گوانتانامو کی قانونی حیثیت اور انصاف کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھائے جا چکے ہیں۔ خالد شیخ محمد کو 2003 میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں سے انہیں سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں منتقل کیا گیا اور کئی سال بعد گوانتانامو بھیجا گیا۔ وہ نائن الیون حملوں کی مکمل منصوبہ بندی کا اعتراف کر چکے ہیں، اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں۔
فیصلے کے بعد نائن الیون متاثرین کے اہلِ خانہ نے اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ ملزمان پر کھلے عام اور شفاف مقدمہ چلے گا، جو انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گوانتانامو کی طویل قانونی پیچیدگیاں اور انسانی حقوق کے سوالات اس مقدمے کو کس انجام تک لے جاتے ہیں۔