ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے حق میں ایک بڑا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یوکرین کو جدید ترین پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ روس کے فضائی حملوں سے اپنا دفاع کر سکے۔
ٹرمپ نے کہا کہ روسی صدر پیوٹن دن میں تو خوش اخلاقی اور نرم لہجے میں بات کرتے ہیں، لیکن شام ہوتے ہی یوکرین کے شہروں پر بمباری شروع کر دیتے ہیں۔ اسی لیے یوکرین کے پاس ایسا نظام ہونا چاہیے جو ان میزائلوں اور ڈرون حملوں کو روک سکے۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ سسٹم امریکہ فراہم کرے گا، لیکن اس کی قیمت یورپی یونین ادا کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم جو بھی فوجی سازوسامان فراہم کر رہے ہیں، اس کے بدلے ہمیں سو فیصد ادائیگی ملے گی، اور یہی طریقہ ہونا چاہیے۔” ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ان کا یہ فیصلہ جلد بازی میں نہیں بلکہ یوکرین کی شدید ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
ٹرمپ کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب یوکرین کی دفاعی مدد میں سنجیدہ ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے وہ یوکرین کو امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے امداد دینے کے سخت خلاف تھے، لیکن اب ان کا مؤقف بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
اسی تناظر میں ٹرمپ اگلے چند دنوں میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے سے ملاقات بھی کرنے والے ہیں۔ اس ملاقات کا مقصد یہ ہوگا کہ نیٹو کے رکن ممالک امریکی اسلحہ خرید کر وہ یوکرین کو دیں تاکہ یوکرین روسی جارحیت کا بھرپور جواب دے سکے۔ نیٹو سیکریٹری جنرل کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ اور کانگریس کے اراکین بھی ان ملاقاتوں میں شامل ہوں گے۔
ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد ایک اور اہم ریپبلکن رہنما سینیٹر لنڈسی گراہم نے بھی کہا کہ اب جنگ ایک نازک موڑ پر آ چکی ہے اور یوکرین کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق جلد ہی یوکرین کو ریکارڈ مقدار میں ہتھیار اور دفاعی نظام بھیجا جائے گا تاکہ وہ روس کی مسلسل پیش قدمی کو روکے۔
دوسری جانب، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی بھی کافی عرصے سے عالمی طاقتوں سے دفاعی مدد مانگ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس روزانہ کی بنیاد پر ڈرون اور میزائلوں سے ان کے شہروں کو نشانہ بنا رہا ہے، اور اگر یوکرین کے پاس جدید دفاعی نظام نہ ہوا تو تباہی کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا۔ اب لگتا ہے کہ امریکہ، نیٹو اور یورپی ممالک اس اپیل پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
ریپبلکن سینیٹر گراہم نے مزید کہا کہ روسی صدر پیوٹن کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ٹرمپ کو کمزور سمجھا، لیکن آنے والے دنوں میں صورتحال بہت مختلف ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی پوری دنیا دیکھے گی کہ کس طرح روس کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے عالمی دباؤ بڑھایا جائے گا۔
اسی دوران، ڈیموکریٹک سینیٹر رچرڈ بلومینتھل نے بھی یوکرین کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں روس کے تین سو ارب ڈالر کے منجمد اثاثے استعمال کرنے چاہئیں تاکہ یوکرین کو براہ راست مالی مدد دی جا سکے۔ یہ اثاثے گروپ آف سیون ممالک نے جنگ شروع ہونے کے بعد منجمد کیے تھے۔
بلومینتھل نے کہا کہ "اب وقت ہے کہ ہم یہ رقم یوکرین کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کریں، کیونکہ روس کی جنگی مشین کو کمزور کرنا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔”
اسی دوران امریکی کانگریس میں ایک ایسا بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت ان ممالک پر 500 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا جو اب بھی روس سے تیل، گیس، یورینیم اور دیگر توانائی کے ذرائع خرید رہے ہیں۔
یہ بل برازیل، چین اور بھارت جیسے ممالک کو براہِ راست متاثر کرے گا کیونکہ وہ روسی توانائی کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔
سینیٹر گراہم کا کہنا تھا کہ “یہ وقت ہے کہ دنیا کو چناؤ کرنا پڑے، یا تو وہ امریکی معیشت کو ترجیح دیں گے یا پھر پیوٹن کی حمایت جاری رکھیں گے۔”
یہ بل کانگریس میں بڑی حمایت حاصل کر چکا ہے، لیکن ریپبلکن قیادت اب بھی ٹرمپ کے اشارے کی منتظر ہے۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پابندیوں کو ختم کرنے یا عارضی طور پر روکنے کا اختیار صرف صدر کے پاس ہو، کانگریس کے پاس نہیں۔ اسی وجہ سے وائٹ ہاؤس نے اس بل کے کچھ نکات پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
بل کے مطابق، صدر ان پابندیوں کو چھ ماہ کے لیے معطل کر سکتا ہے، لیکن اگر روس دوبارہ جارحیت کرے تو وہ پابند ہوگا کہ ان پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرے۔ سینیٹر بلومینتھل نے کہا کہ “ہم نے پہلے بھی ایسے بل منظور کیے ہیں جن میں صدر کو کچھ اختیار حاصل ہوتا ہے، اس لیے اس بار بھی اختلافات کو ختم کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔”
دوسری طرف، فرانس کے وزیر دفاع سباستیان لیکورنو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ فرانس خود اس وقت نئے دفاعی میزائل فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، لیکن وہ اگلے سال یوکرین کی مدد کے لیے تیار ہو جائے گا۔ تب تک فرانس امریکہ پر انحصار کرے گا کہ وہ یوکرین کو دفاعی سسٹمز فراہم کرے۔
ٹرمپ نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ جلد روس کے حوالے سے ایک “بڑا اعلان” کرنے والے ہیں، تاہم اس کے بارے میں انہوں نے تفصیل سے کچھ نہیں بتایا۔ ان کا کہنا تھا، “کل دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ یوکرین کو مکمل سپورٹ دی جائے۔”
ان تمام بیانات، اقدامات اور منصوبوں سے واضح ہوتا ہے کہ اب امریکہ اور اس کے اتحادی روس کے خلاف نہ صرف سفارتی محاذ پر بلکہ دفاعی اور اقتصادی میدان میں بھی فیصلہ کن اقدامات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
یوکرین کو پیٹریاٹ سسٹم کی فراہمی ہو، روسی اثاثوں کا استعمال یا روسی تیل پر پابندیاں — یہ سب اشارہ دے رہے ہیں کہ عالمی برادری پیوٹن کی جارحیت کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔