ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ 12 روزہ کشیدگی میں ایک نہایت سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا ہے۔ ایران کی سرکاری فارس نیوز ایجنسی، جو پاسدارانِ انقلاب کے قریب سمجھی جاتی ہے، نے رپورٹ کیا ہے کہ 16 جون کو اسرائیل نے تہران کے ایک خفیہ زیرِ زمین مرکز پر حملہ کیا تھا جہاں اس وقت صدرمسعود پیزشکیان سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں شریک تھے۔
اسرائیلی میزائل حملے میں صدر پیزشکیان مبینہ طور پر معمولی زخمی ہوئے اور ان کی ٹانگ پر چوٹیں آئیں، جب کہ تمام چھ داخلی و خارجی راستے اور وینٹیلیشن سسٹم کو نشانہ بنایا گیا۔ مرکز کی بجلی بھی منقطع کر دی گئی تھی۔ اس شدید حملے کے باوجود صدر اور دیگر اعلیٰ حکام ایمرجنسی شافٹ کے ذریعے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ تنصیب سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میزبانی کرتی ہے، جو کہ ایران میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بعد دوسرا سب سے طاقتور فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، حملے کے بعد 24 گھنٹے تک ایران کی اعلیٰ سطحی فیصلہ سازی مفلوج رہی، جو کہ ایک بڑا سیکیورٹی خلا ظاہر کرتی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اس واقعے پر کوئی سرکاری تبصرہ نہیں کیا گیا، تاہم اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گالانٹ اور وزیر اسرائیل کاٹز نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کا مقصد ایرانی حکومت کی تبدیلی تھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اس حملے کا ایک ہدف آیت اللہ خامنہ ای بھی تھے، تاہم انہیں ایک خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا، جہاں وہ دنیا سے تقریباً منقطع ہو گئے تھے۔ یہ بات اب بھی سوالات کو جنم دے رہی ہے کہ اسرائیل نے ایران کے انتہائی خفیہ مقامات اور رہنماؤں کے ٹھکانوں کی انٹیلیجنس کیسے حاصل کی؟
اگرچہ فارس نیوز ایجنسی کی اس رپورٹ کی آزادانہ تصدیق ابھی تک نہیں ہو سکی، لیکن اگر اس میں صداقت ہے تو یہ جدید دور کی سب سے جرات مندانہ انٹیلیجنس کارروائیوں میں سے ایک شمار کی جائے گی۔