امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادی میر پوتین پر کھلی اور غیر معمولی تنقید کرتے ہوئے عالمی منظرنامے میں ایک نئی سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ پیر کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے پوتین سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا میں صدر ولادی میر پوتین سے سخت مایوس ہوں۔ میں سمجھتا تھا وہ وعدوں کے پکے اور سنجیدہ شخصیت ہیں، لیکن وہ رات کو شہری علاقوں پر بم برساتے ہیں۔ ہمیں یہ رویہ پسند نہیں۔
ٹرمپ کے لہجے میں یہ سختی پچھلے چند مہینوں میں واضح طور پر نظر آئی ہے۔ پہلے جہاں وہ روسی صدر کے بارے میں محتاط انداز اپناتے تھے، اب وہ ان کے اقدامات پر کھل کر بولنے لگے ہیں۔ اپریل میں کیف پر روسی حملوں کے بعد انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر پوتین سے براہِ راست اپیل کرتے ہوئے کہا تھا:
ولادی میر، بس کرو ہر ہفتے پانچ ہزار فوجی مارے جا رہے ہیں، آؤ امن کی طرف آ جائیں۔مارچ میں ٹرمپ نے ان بیانات پر بھی شدید ردِ عمل دیا تھا جن میں پوتین نے یوکرینی صدر زیلنسکی کی صدارت پر سوالات اٹھائے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے روس کی تیل کی برآمدات پر ممکنہ محصولات کی دھمکی دی تھی، اگر روس نے کشیدگی بند نہ کی۔
مئی اور جون میں ٹرمپ کا لب و لہجہ مزید سخت ہو گیا، جب انہوں نے پوتین کو "پاگل” قرار دیا اور اسرائیل و ایران کے تنازع میں ثالثی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یوکرین کا معاملہ حل کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کی یہ پوزیشن اندرونی سیاسی دباؤ اور بین الاقوامی تنقید کے بعد ابھر کر سامنے آئی ہے، جو ان سے یوکرین جنگ پر زیادہ جارحانہ مؤقف اختیار کرنے کا تقاضا کر رہی تھی۔
اطلاعات ہیں کہ صدر ٹرمپ آج یوکرین کے لیے ہتھیاروں کے ایک نئے پیکیج کا اعلان کریں گے، جس میں حملہ آور ہتھیار بھی شامل ہوں گے۔ یہ اقدام ان کے بدلتے ہوئے عالمی مؤقف اور پوتین کے خلاف واضح سختی کا عملی ثبوت سمجھا جا رہا ہے۔