دمشق /واشنگٹن / تل ابیب: جنوبی شام کی فضا ایک بار پھر کشیدگی سے بھر گئی ہے جہاں اسرائیلی طیاروں نے السویداء اور درعا کے علاقوں میں متعدد فضائی حملے کیے،جبکہ امریکی حکام کی جانب سے اسرائیل کو ان حملوں سے باز رہنے کا مطالبہ سامنے آ گیا ہے۔
امریکی ویب سائٹ "Axios” اور اسرائیلی چینل 12 کے مطابق، واشنگٹن نے تل ابیب پر زور دیا ہے کہ وہ شامی فوج کے خلاف کارروائیاں بند کرے،اور اسرائیل نے امریکی حکام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ منگل کی شام کے بعد حملے روک دے گا۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے السویداء صوبے کے مضافاتی علاقوں پر تین فضائی حملے کیے جبکہ ایک حملہ درعا کے مشرقی دیہی علاقے میں واقع بریگیڈ 52 پر کیا گیا۔ ان حملوں کے بعد امریکی دباؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا، اور اسرائیلی حکام نے ان حملوں کو "دروز اقلیت کے دفاع” سے تعبیر کیا۔
اسی دوران، امریکی صدر کے شام کے لیے خصوصی ایلچی ٹوم باراک نے جنوبی شام میں بڑھتی ہوئی جھڑپوں کو "تشویشناک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایک جامع اور پرامن حل کے لیے تمام فریقوں سے مؤثر رابطے میں ہے۔ ان کے مطابق، غلط فہمیاں اور کمزور رابطے تنازعے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
شامی حکومت نے ان جھڑپوں کے بعد السویداء شہر میں فوجی دستے بھیجے اور دروز عمائدین کے ساتھ مذاکرات کے بعد فائر بندی پر اتفاق کیا۔ وزارت دفاع کے مطابق، اس معاہدے کے بعد شامی سرکاری افواج شہر میں داخل ہو گئیں تاکہ امن بحال کیا جا سکے۔ دروزی مذہبی رہنماؤں نے بھی مقامی مسلح گروہوں سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل کی۔
واضح رہے کہ حالیہ جھڑپیں دروز اور مقامی بدو قبائل کے درمیان ہوئیں جن میں درجنوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے اپنے بیان میں ان حملوں کوواضح پیغام قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل دروز اقلیت کے خلاف کسی بھی ظلم کو برداشت نہیں کرے گا۔
موجودہ صورتحال نہ صرف خطے کی سیاسی پیچیدگیوں کو بڑھا رہی ہے بلکہ اسرائیل، شام، امریکہ اور اقلیتی گروہوں کے درمیان تعلقات کو بھی ایک نئے موڑ پر لے جا رہی ہ