اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے غزہ کی بدترین انسانی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کا موجودہ منظر نامہ ناقابلِ یقین اور ایسی ہولناکی کا عکاس ہے جو آج کے ترقی یافتہ دور میں ناقابلِ تصور تھی۔
سفیر پاکستان کا کہنا تھا کہ اسپتال بمشکل کام کر رہے ہیں، بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور انسانی امداد کا حصول ایک جان لیوا مشن بن چکا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ امدادی نظام نہ صرف ناکام ہو چکا ہے بلکہ اس نے ان ہی افراد کو مایوس کیا ہے جن کی خدمت کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق مئی سے اب تک 798 امدادی کارکن شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے 615 ایسے علاقوں میں مارے گئے جہاں امدادی مراکز قائم تھے۔
عاصم افتخار نے کہا کہ غزہ میں جو امداد پہنچ رہی ہے وہ انتہائی کم، ناقص اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تقاضوں سے عاری ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ امدادی نظام خود "موت کا جال” بن چکا ہے، جو فلسطینیوں کو جنگی زون میں دھکیل رہا ہے تاکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات حاصل کر سکیں۔
سفیر پاکستان نے درد مندانہ انداز میں عالمی برادری کو یاد دلایا کہ نومولود بچے بھوک سے مر رہے ہیں، دودھ کی فراہمی بند ہو چکی ہے، اور یہ سب کچھ انسانی ضمیر کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ ادویات، پناہ گاہیں، ایندھن اور صاف پانی کی شدید قلت نے اسپتالوں، بیکریوں، ٹیلی کمیونیکیشن، اور ایمبولینس سروسز کو مفلوج کر دیا ہے۔ 21 لاکھ کی آبادی مکمل تباہی کے کنارے کھڑی ہے، اس لیے فوری طور پر انسانی امداد، ایندھن اور طبی سامان کو غزہ میں بلاروک رکاوٹ پہنچنے دینا ناگزیر ہے۔
عاصم افتخار نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ موجودہ امدادی ماڈل اقوام متحدہ کے غیرجانبدارانہ کردار کو نقصان پہنچا رہا ہے، اور اگر یہ طرز عمل جاری رہا تو آئندہ تنازعات میں شہریوں کی حفاظت مزید خطرے میں پڑ جائے گی۔
انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ یہ سانحہ ناگزیر نہیں تھا، بلکہ اسرائیلی قابض حکومت کی سوچے سمجھے اقدامات، پالیسیوں اور جنگی جرائم کا نتیجہ ہے، جسے بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ خاموش تماشائیوں کو معاف نہیں کرے گی، اس لیے اقوام متحدہ کو اب اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ انسانیت کے ساتھ کھڑی ہے۔
سفیر پاکستان نے فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی، غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے، اور بلاروک ٹوک انسانی رسائی کی بحالی پر زور دیا۔ انہوں نے تمام فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کی غیر مشروط رہائی، اور اسرائیل کی جبری بے دخلی جیسی غیر قانونی پالیسیوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا۔
آخر میں، سفیر عاصم افتخار نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن صرف اسی صورت ممکن ہے جب 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر قائم، القدس الشریف کو دارالحکومت بنانے والی آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ قیادت میں ہونے والی اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس اس سمت میں فوری، مؤثر اور دیرپا نتائج دے گی۔