یورپی یونین نے بھارت کی دوسری سب سے بڑی اور روسی شراکت داری والی ودی نار ریفائنری پر پابندیاں عائد کر کے عالمی توانائی سیاست میں ایک نئی لہر چھیڑ دی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب بھارت میں واقع کسی ریفائنری کو یورپی پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
گجرات میں واقع یہ ریفائنری نایارا انرجی چلاتی ہے، جس میں روسی سرکاری تیل کمپنی Rosneft کا 49 فیصد حصہ ہے۔ اس کا سالانہ پیداواری حجم 2 کروڑ میٹرک ٹن ہے، اور یہ یورپی مارکیٹ کے لیے روسی خام تیل صاف کرتی ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اس اقدام کو "روس کے خلاف سب سے مؤثر پابندیوں میں سے ایک” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پیکیج کا مقصد کریملن کے جنگی بجٹ کو کمزور کرنا، "شیڈو فلیٹ” یعنی پوشیدہ جہازوں کو ہدف بنانا، اور روسی مالیاتی اداروں کی عالمی رسائی کو روکنا ہے۔
دوسری طرف، یورپی یونین کے بھارت میں سفیر ہروی ڈلفن نے وضاحت کی ہے کہ یورپی یونین نے کسی بھی ملک کو روسی تیل خریدنے سے روکا نہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر بھارت سستا تیل خریدتا ہے تو یہ اُس کا معاشی فائدہ ہے۔
بھارت نے روسی تیل کی خریداری پر مغربی دباؤ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ عوام کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا ہماری پہلی ترجیح ہے اور ہم قومی مفاد میں فیصلے کرتے ہیں۔
روس، یوکرین جنگ کے بعد سے بھارت کا سب سے بڑا تیل فراہم کنندہ بن چکا ہے۔ مئی 2025 میں بھارت نے روزانہ 18 لاکھ بیرل روسی تیل درآمد کیا، جو گزشتہ 10 ماہ کا بلند ترین اعداد و شمار ہے۔
یورپی یونین نے بھارت کی فلیگ رجسٹری کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس کا مطلب ہے کہ روسی تیل لے جانے والے بھارتی پرچم بردار جہازوں کو بھی یورپی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف توانائی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے بلکہ بھارت کی عالمی شپنگ پالیسی پر بھی اثر پڑے گا۔