امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ سے عنقریب مزید 10 اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کروایا جائے گا۔ وائٹ ہاؤس میں کانگریس کے ارکان کے ساتھ ایک خصوصی عشائیے کے دوران صدر ٹرمپ نے اس اہم پیش رفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں، جنہوں نے قیدیوں کی رہائی کے لیے خاموش لیکن مؤثر سفارتی کردار ادا کیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے بیشتر قیدیوں کو بازیاب کرا لیا ہے۔ مزید 10 قیدیوں کو بہت جلد واپس لایا جائے گا۔ ہمیں اُمید ہے کہ یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی سے متعلق بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں۔ ان مذاکرات میں امریکی حمایت یافتہ 60 روزہ جنگ بندی کا مسودہ بھی زیر بحث ہے۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق اسرائیل نے تاحال ان تجاویز پر کوئی واضح ردعمل نہیں دیا جو ثالثوں کی جانب سے غزہ اور انسانی امداد کے حوالے سے پیش کی گئی تھیں۔ ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جمعے کے روز تک قیدیوں کے تبادلے پر باقاعدہ مذاکرات کا آغاز بھی نہیں ہو سکا تھا، اور اسرائیلی وفد کی موجودگی محض علامتی دکھائی دیتی ہے۔
اسی دوران تل ابیب میں مظاہروں کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ 21 جون کو ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے پس منظر میں اسرائیلی رضاکاروں اور قیدیوں کے اہل خانہ نے لیکوڈ پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے باہر مظاہرہ کیا، جس میں قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
دوسری طرف، حماس کا مؤقف بھی واضح ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ طاقت کے زور پر قیدی چھڑوانے کی تمام اسرائیلی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، اور اب صرف "مزاحمت کی شرائط” پر قیدیوں کے تبادلے کی راہ ممکن ہے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیل اب ایک سینئر وفد بھیجنے پر غور کر رہا ہے تاکہ دوحہ مذاکرات میں تیزی لائی جا سکے۔ تاہم سرکاری ذرائع نے ابھی تک اس وفد کی نوعیت اور اختیارات سے متعلق کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے مسئلے پر سفارتی محاذ پر ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے، جہاں امریکہ، قطر اور مصر جیسے ممالک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں، جبکہ اسرائیل اور حماس اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔