شام کے جنگ سے تباہ حال علاقوں میں سعودی عرب کی جانب سے انسانی ہمدردی پر مبنی امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ پوری شدت سے جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے شاہ سلمان انسانی ہمدردی و امدادی مرکز نے ایک اور اہم قدم اٹھاتے ہوئے شام کے جنوبی علاقوں میں ضرورت مند افراد کو بنیادی ضروریات کی اشیاء فراہم کیں۔ اس مہم کا مرکز خاص طور پر ان بے گھر افراد کی بحالی تھا جو السویدہ کے خطے سے نکل کر درعا گورنریٹ کے پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہو گئے تھے۔
یہ امدادی کارروائی سعودی عرب کے ان مستقل فلاحی منصوبوں کا حصہ ہے جو برسوں سے شامی عوام کے دکھ درد بانٹنے کے لیے جاری ہیں۔ شاہ سلمان مرکز نے خوراک، خیمے، اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ کی تقسیم کا آغاز ان علاقوں میں کیا جہاں لوگ بے سروسامانی کے عالم میں موسم کی شدت اور معاشی تنگدستی سے دوچار تھے۔ ان اشیاء کی ترسیل سے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد افراد کو ریلیف پہنچا، جن میں بچے، خواتین، بزرگ اور مریض شامل تھے۔
اس کارِ خیر میں سعودی وزارت دفاع نے بھی کلیدی کردار ادا کیا، جن کے تعاون سے امدادی سامان پہنچانے کے لیے فضائی پل قائم کیا گیا۔ اس فضائی پل کے تحت سعودی عرب کے دو بڑے فوجی طیارے الاذقیہ گورنریٹ میں جنگل کی آگ سے متاثرہ علاقوں کے لیے روانہ کیے گئے۔ یہ طیارے قیمتی سامان، عارضی رہائش گاہوں کے لیے شیلٹرز، اور ہنگامی طبی امداد کے آلات سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ جہاز شام کے حلب انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے جہاں امدادی ادارے پہلے سے تیار موجود تھے تاکہ یہ تمام سامان فوری طور پر متاثرہ افراد تک پہنچایا جا سکے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ شام کے الاذقیہ اور درعا جیسے علاقوں میں نہ صرف قدرتی آفات بلکہ خانہ جنگی کے باعث بھی لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ان علاقوں میں طویل عرصے سے بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، اور لوگوں کی بڑی تعداد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سعودی عرب، جو ہمیشہ سے عالمی انسانی بحرانوں میں فعال کردار ادا کرتا آیا ہے، نے ایک مرتبہ پھر اپنی انسان دوستی کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔
شاہ سلمان انسانی امدادی مرکز کی ان سرگرمیوں سے شام میں جاری انسانی بحران میں کچھ حد تک بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف متاثرہ افراد کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں بلکہ ان کے ذہنی و جذباتی دُکھوں کا مداوا بھی کر رہی ہیں۔ متاثرہ افراد نے سعودی عرب کی اس امداد پر دلی تشکر کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ بین الاقوامی برادری بھی اسی طرح کے جذبے کے تحت آگے بڑھے گی۔