پاکستان کے معاشی حب اور سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی سمیت سندھ کے دیگر اہم شہروں میں آج کاروباری برادری کی جانب سے ٹیکس سے متعلق نئی قانونی ترامیم کے خلاف زبردست ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اس سلسلے میں نہ صرف چھوٹی بڑی مارکیٹیں بند رہیں بلکہ معاشی سرگرمیاں مکمل طور پر مفلوج ہو گئیں۔ کاروباری طبقے کی نمائندہ تنظیموں نے اس احتجاجی اقدام کو حکومت کی غیرمنصفانہ ٹیکس پالیسیوں کے خلاف ایک فیصلہ کن قدم قرار دیا ہے۔
تاجروں کی اس اجتماعی مزاحمت کے اثرات نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب کے اہم شہروں تک پھیل گئے۔ لاہور میں بھی تاجر برادری نے حکومتی ٹیکس نظام پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے مختلف بازاروں میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی۔
لاہور کی معروف تجارتی جگہیں جیسے اچھرہ، انارکلی، شاہ عالم، ہال روڈ، میکلوڈ روڈ اور اکبر منڈی بند رہیں، جس سے شہریوں کو روزمرہ اشیاء کی خریداری میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی میں صورتحال انتہائی سنجیدہ رہی۔ شہر کے مرکزی کاروباری مراکز بشمول صدر، ریگل، لیاقت آباد، حیدری، کورنگی، صرافہ بازار، کپڑا مارکیٹ اور میڈیسن مارکیٹ مکمل طور پر بند تھے۔ یہاں تک کہ سبزی اور پھل منڈیوں میں بھی معمول کی گہما گہمی ماند پڑ گئی، جو عام حالات میں دن کے آغاز سے ہی خریداروں سے بھر جاتی ہیں۔
اس ہڑتال کا اعلان کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جاوید بلوانی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت تحریری طور پر اس قانون میں نرمی یا وضاحت کی یقین دہانی نہیں کراتی، تب تک احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہفتے میں ایک یا دو دن کی بجائے مکمل ہفتہ ہڑتال کی جا سکتی ہے۔
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی احتجاجی فضا چھائی رہی۔ صدر بازار حیدرآباد کے تاجروں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دکانیں بند رکھیں۔
مقامی انجمن تاجران کے رہنماؤں نے تاجروں کے تعاون کو سراہتے ہوئے اسے ایک تاریخی یکجہتی قرار دیا اور حکومت کو تنبیہ کی کہ تاجر طبقے کے مسائل حل نہ ہوئے تو یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کرے گا۔
آل پاکستان ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن نے بھی اس احتجاج کا حصہ بنتے ہوئے اپنا عملی کردار ادا کیا۔ تنظیم کے صدر وقاص عظیم نے کہا کہ ملک بھر کے تاجر برسوں سے حکومت کو ٹیکس ادا کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چھاپوں اور گرفتاریوں کی سیاست بند کی جائے اور باعزت طریقے سے مسائل کو حل کیا جائے۔
سیاسی سطح پر بھی اس ہڑتال کو بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔ وفاقی حکومت میں شامل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اس احتجاج کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس نظام کی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ضرور ہیں، مگر ان کا اطلاق منصفانہ طریقے سے ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس چھاپے اور تاجروں کی بلاجواز گرفتاری اصلاحات نہیں بلکہ استحصال ہیں۔
تاجروں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت فوری طور پر اس نئے ٹیکس ترمیمی قانون پر نظر ثانی کرے، کیونکہ اس کے نفاذ سے کاروباری طبقہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہا ہے۔ جاوید بلوانی کا کہنا ہے کہ اس احتجاج میں صرف چھوٹے تاجر ہی نہیں بلکہ ایکسپورٹرز، ٹرانسپورٹرز، ہول سیلرز، اور تقریباً تمام مارکیٹوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ محض کوئی سیاسی تحریک نہیں بلکہ معاشی بقا کی جنگ ہے۔