پنجاب وومن پروٹیکشن اتھارٹی کی سربراہ حنا پرویز بٹ نے حال ہی میں جنسی زیادتی کا شکار خواتین کے گھروں کا دورہ شروع کیا ہے اور ان کے ساتھ کی گئی ملاقاتوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کر رہی ہیں۔
تاہم اس عمل پر عوامی ردعمل انتہائی منفی ہے—سوشل میڈیا صارفین کا موقف ہے کہ متاثرہ خواتین اور ان کے خاندانوں کی شناخت ظاہر کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ قانونی طور پر بھی ممنوع ہے۔
یہ دورے عام طور پر متاثرہ خاتون کے گھر، اس کے محلے اور اہل علاقہ کو منظر عام پر لاتے ہیں، اور بعض اوقات ویڈیوز میں شہر یا علاقے کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔
تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل متاثرہ خواتین کی عزت نفس کی پامالی سے کم نہیں، کیونکہ اس سے ان کی شناخت کسی حد تک ظاہری طور پر ہو جاتی ہے۔ صحافی محمد عمیر نے ایک ٹویٹ میں سخت زبان استعمال کرتے ہوئے لکھا:
"حنا پرویز بٹ پنجاب میں لوگوں کی عزت کے ساتھ ایک غیر معمولی کھیل کھیل رہی ہیں، وہ ہر زیادتی کے کیس میں متاثرہ خاندانوں کے گھر پہنچتی ہیں اور پوری تفصیل سوشل میڈیا پر شیئر کرتی ہیں۔”
ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ حُنا کی ویڈیوز گھر میں کیمرہ مین اور میڈیا ٹیم کے ساتھ ریکارڈ کی جاتی ہیں، جس سے محلے والے بھی سمجھ جاتے ہیں کہ وہاں کوئی لڑکی امتیازی سلوک یا زیادتی کا شکار ہوئی ہے۔
حنا پرویز بٹ نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد متاثرہ خواتین کو یہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں، بلکہ ریاست، قانون اور ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ویڈیوز مجرموں کے لیے واضح پیغام ہوتی ہیں کہ خاموشی کا دور ختم ہو چکا ہے، اور متاثرہ خواتین اپنی آواز بلند کر سکتی ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ کسی بھی ویڈیو میں متاثرہ خاتون کا چہرہ، نام، برادری یا درست مقام ظاہر نہیں کیا جاتا، اور تمام مواد مکمل رازداری کے اصولوں کے تحت محفوظ رکھا جاتا ہے۔
تاہم، قانونی ماہرین نے اس طریقہ کار پر کڑی تنقید کی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ مدثر چوہدری نے واضح کیا کہ اینٹی ریپ ایکٹ 2021 کے تحت متاثرہ خاتون یا اس کے خاندان کی شناخت عام کرنا قطعی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قانون کے مطابق متاثرہ خاتون یا لڑکی سے بیان ریکارڈ کرنے کے لیے اسے پولیس سٹیشن آنے کی ضرورت نہیں بلکہ پولیس کو گھر پر رازداری سے بیان لینا چاہیے۔ اگر متاثرہ یا اس کے سرپرست کی تحریری اجازت نہ ہو تو یہ عمل غیرقانونی تصور ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے جواب میں حنا پرویز بٹ نے کہا کہ اگر دفتر میں بیٹھ کر کیسز کا سِرا کھوجنے سے انصاف ممکن ہوتا، تو اب تک بہت کچھ بدل گیا ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں تنقید سے فرق نہیں پڑتا، ہمارا مقصد صرف انصاف پہنچانا ہے”۔ انہوں نے بتایا کہ ایکس پر 15 جولائی 2025 کو انہوں نے ایک متاثرہ بچی کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر وہ کاہنہ میں گئی جہاں ایک کم عمر بچی کے ساتھ انتہائی ظلم ہوا تھا، اور انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ ریاست انصاف فراہم کرے گی۔ ویڈیو میں پولیس اہلکار ٹارچز لیے موجود تھے اور حنا بچی سے ہمدردی کا اظہار کر رہی تھیں۔
پنجاب وومن پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام ہی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے عمل میں آیا تھا، تاکہ گھریلو تشدد، جبری شادی، جنسی ہراسانی اور امتیازی سلوک کا سدباب کیا جا سکے۔ اس ادارے کی پالیسیوں میں متاثرین کو قانونی مشورہ، نفسیاتی سہولیات، شیلٹر، اور میڈیکل مدد فراہم کرنا شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریپ وکٹمز کے لیے خصوصی ایس پی اوز (سپرنٹنڈنٹس) متعین کیے گئے ہیں تاکہ تمام متعلقہ اداروں کو آئندہ کے تاثر سے آگاہ کیا جا سکے۔
ضلع اور گروپ سطح پر ویمن پروٹیکشن کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں تاکہ عوامی سطح پر بہبود مثل شعور بیداری اور نگرانی ممکن ہو سکے۔ 2025 میں پنجاب میں منظور ہونے والا ایسڈ کنٹرول بل بھی انہی اقدامات کا حصہ ہے، جس سے تیزاب گردی جیسے واقعات پر قانونی سختی لائی گئی ہے۔