اسلام آباد: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے خلاف شراب اور اسلحہ برآمدگی کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسن چشتی کی جانب سے جاری کیے گئے دو صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں واضح کیا گیا کہ ملزم جان بوجھ کر دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ نہیں کرا رہے، لہٰذا عدالت نے سخت قدم اٹھاتے ہوئے انہیں گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت نے علی امین گنڈاپور کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر وہ 21 جولائی کو پیش نہ ہوئے تو بغیر بیان کے ہی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ کیس گزشتہ 8 برسوں سے زیر التوا ہے، جبکہ مئی 2024 میں پراسیکیوشن اپنے تمام گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرا چکی ہے۔
دورانِ سماعت علی امین گنڈاپور کے وکیل نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل 23 ستمبر تک ضمانت پر ہیں، لہٰذا اس عدالت کو وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار نہیں۔ تاہم، عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے میں اس کیس کا ذکر نہیں، اس لیے وارنٹ جاری کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
عدالت نے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد یقینی بنانے کا حکم دیا ہے، جب کہ علی امین گنڈاپور کے شورٹی کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 21 جولائی کو مقرر ہے، جو علی امین کے لیے عدالت میں پیش ہونے کا آخری موقع ہو گا۔
یاد رہے کہ یہ مقدمہ اکتوبر 2016 میں اس وقت درج کیا گیا تھا جب اسلام آباد پولیس نے بنی گالا کے قریب علی امین گنڈاپور کی گاڑی سے پانچ کلاشنکوف رائفلز، ایک پستول، چھ میگزین، بلٹ پروف جیکٹ، شراب کی بوتل اور آنسو گیس کے تین گولے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم پی ٹی آئی رہنما نے اس وقت پولیس کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ وہ صرف دو لائسنس یافتہ کلاشنکوف لے جا رہے تھے اور شراب کی بوتل میں شہد تھا، جو پولیس نے ضبط کر لیا۔