لندن/غزہ: غزہ میں تعینات ایک ممتاز برطانوی سرجن نے ایسا انکشاف کیا ہے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ پروفیسر نک مینارڈ، جو خان یونس کے ناصر ہسپتال میں انسانی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں، نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فوجی اور نجی سیکیورٹی اہلکار امدادی مراکز میں بچوں کو دنوں کے حساب سے جسم کے مخصوص حصوں پر گولی مار رہے ہیں۔
پروفیسر مینارڈ نےمیڈیا کو بتایا کہ ہم روزانہ بچوں کو ایک جیسے زخموں کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ ایک دن سب کے پیٹ پر، دوسرے دن سر یا گردن پر، پھر ٹانگوں یا بازوؤں پر گولیوں کے زخم۔ یہ ایسے لگتا ہے جیسے کوئی مکروہ کھیل کھیلا جا رہا ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعات ان امدادی مراکز کے آس پاس پیش آتے ہیں جو غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے تحت کام کر رہے ہیں، اور جہاں زیادہ تر نوعمر لڑکے کھانے کی تلاش میں پہنچتے ہیں، مگر واپسی پر یا تو زخمی ہوتے ہیں یا لاش بن چکے ہوتے ہیں۔
پروفیسر نک مینارڈ نے ان مراکز کو موت کے پھندے قرار دیتے ہوئے کہا یہ وہ جگہیں ہونی چاہییں جہاں زندگی کی امید ہو، لیکن یہاں موت بانٹی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان مراکز میں اسرائیلی فوج اور امریکہ کے حمایت یافتہ نجی عسکری ٹھیکیدار تعینات ہیں، اور بیشتر فائرنگ ڈرونز یا نگرانی کرنے والے فوجیوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق مئی سے اب تک ایسے امدادی مراکز پر فائرنگ سے کم از کم 875 فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔
پروفیسر مینارڈ کے انکشافات غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی نوعیت اور نیت پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام واقعات اچانک یا حادثاتی نہیں بلکہ ایک منظم پیٹرن کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔