بحیرہ مردار، جسے انگریزی میں Dead Sea کہا جاتا ہے، دنیا کے ان چند قدرتی مقامات میں سے ایک ہے جو اپنی سائنسی، طبی، جغرافیائی اور تاریخی اہمیت کے باعث انسان کو بار بار حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
یہ منفرد جھیل اردن، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان واقع ہے اور اپنی مخصوص ساخت، جغرافیائی محلِ وقوع اور انتہائی نمکیات کی موجودگی کی وجہ سے زمین کی سب سے منفرد آبی گزرگاہوں میں شمار کی جاتی ہے۔
اس کا شمار دنیا کے سب سے نچلے مقام پر واقع پانی کے ذخیرے میں ہوتا ہے، جہاں کی سطح سمندر سے تقریباً 430 میٹر نیچے ہے، یعنی دنیا کی سطح زمین پر یہ سب سے گہرا مقام ہے۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو اسے دوسرے تمام آبی ذخائر سے ممتاز کرتی ہے۔
بحیرہ مردار دراصل ایک بند جھیل ہے، یعنی یہاں دریاؤں یا برساتی نالوں سے پانی تو داخل ہوتا ہے، مگر باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہاں کا خشک اور گرم موسم پانی کو تیزی سے بخارات میں بدل دیتا ہے، لیکن پانی کے ساتھ موجود نمک اور معدنیات یہیں باقی رہ جاتے ہیں۔
یہی عمل ہزاروں سالوں سے جاری ہے اور اس دوران یہاں کا پانی رفتہ رفتہ اتنا نمکین ہو گیا ہے کہ اب اس میں نمکیات کی مقدار عام سمندر کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ اگر عام سمندر میں نمک کی مقدار تقریباً 3 فیصد ہوتی ہے، تو بحیرہ مردار میں یہ 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
اس قدر نمکین ہونے کی وجہ سے بحیرہ مردار میں کسی قسم کی آبی حیات زندہ نہیں رہ سکتی۔ نہ مچھلیاں، نہ جھینگے، نہ سمندری پودے، نہ ہی خوردبینی جاندار – یہی وجہ ہے کہ اسے "مردار” یعنی Dead Sea کہا جاتا ہے۔
اگرچہ تکنیکی اعتبار سے یہ نام بالکل درست نہیں، کیونکہ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس کے اردگرد کے کچھ حصوں میں مخصوص اقسام کے بیکٹیریا اور خوردبینی جاندار موجود ہوتے ہیں، جو انتہائی نمکین ماحول میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر عمومی طور پر اس میں زندگی کا کوئی نمایاں نشان نہیں ہوتا۔
اس جھیل کی ایک اور حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی انسان ڈوب نہیں سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں کے پانی کی کثافت بہت زیادہ ہے۔ سادہ الفاظ میں، پانی اتنا بھاری ہے کہ انسانی جسم آسانی سے اس میں تیرتا رہتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ آرام سے پانی پر لیٹ کر اخبار یا کتاب پڑھ سکتے ہیں، بغیر کسی خوف کے۔ یہ تجربہ دنیا کے کسی اور پانی میں ممکن نہیں۔ یہاں آنے والے سیاح اس انوکھے تجربے سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
اس جھیل کی مٹی اور پانی میں کئی قدرتی معدنیات شامل ہیں جو اسے طبی لحاظ سے بھی خاص بناتے ہیں۔ یہاں کی مٹی میں میگنیشیم، کیلشیم، برومین، سوڈیم اور پوٹاشیم جیسے عناصر پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ جلدی بیماریوں، جلد کی سوزش، جوڑوں کے درد اور جلد کی خشکی جیسے مسائل میں بہت مؤثر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے لوگ یہاں علاج اور سکون حاصل کرنے آتے ہیں۔
بین الاقوامی کمپنیاں یہاں کی مٹی اور نمک کا استعمال کر کے مہنگی بیوٹی اور اسکن کیئر مصنوعات تیار کرتی ہیں، جو عالمی مارکیٹ میں خوب مقبول ہیں۔
علاج کے ساتھ ساتھ بحیرہ مردار کا تاریخی پہلو بھی بے حد اہم ہے۔ اس کے آس پاس کے علاقے تاریخ کے کئی عظیم واقعات کے گواہ رہے ہیں۔ یہاں قلعہ مسادا (Masada Fortress) موجود ہے جو یہودی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔
یہاں رومیوں کے خلاف یہودیوں کا آخری معرکہ ہوا تھا، جس کے بعد قلعے کے اندر موجود سینکڑوں یہودیوں نے اپنی جانیں دے کر غلامی سے بچنے کو ترجیح دی۔ یہ مقام آج بھی یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے اور سیاحوں کے لیے دلچسپی کا مرکز ہے۔
اس جھیل سے جڑی ایک اور تاریخی جھلک قمران کے غاروں میں محفوظ ہے، جہاں مشہور زمانہ "Dead Sea Scrolls” یعنی بحیرہ مردار کے طومار دریافت ہوئے تھے۔
یہ قدیم عبرانی، آرامی اور یونانی زبان میں لکھے گئے مذہبی مسودات ہیں جو بائبل اور اس دور کے یہودی فرقوں کی زندگی اور عقائد پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان طوماروں کی دریافت نے دنیا بھر کے مورخین، ماہرین آثار قدیمہ اور مذہبی اسکالرز کے لیے ایک نئی راہ کھولی اور آج بھی ان پر تحقیق جاری ہے۔
بحیرہ مردار کو دنیا کی قدرتی اسپاکا بھی لقب دیا جاتا ہے، کیونکہ یہاں نہ صرف علاج و شفا ممکن ہے بلکہ یہ جگہ ذہنی سکون، جسمانی آرام اور روحانی توانائی کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔
یہاں کے مناظر، خاموشی اور سکوت ایک روحانی تجربہ بن جاتے ہیں۔ یہاں آسمان اور زمین کا میل، ریت اور پانی کا امتزاج، انسان کو ایک خاص سکون اور سرشاری کا احساس دلاتا ہے۔
یہ جھیل نہ صرف سیر و تفریح کی جگہ ہے بلکہ سائنسی اور تعلیمی تحقیق کا مرکز بھی ہے۔ یہاں کی جغرافیائی ساخت، زمینی حرکتیں، اور موسمی اثرات پر مسلسل مطالعہ کیا جا رہا ہے تاکہ اس ماحول سے جڑے ممکنہ خطرات اور امکانات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بحیرہ مردار کا پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے اور ماہرین اس کے تحفظ کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر اس کی موجودہ شرح سے پانی کی سطح کم ہوتی رہی تو آنے والے چند دہائیوں میں یہ عظیم جھیل مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔