سعودی عرب نے سائبر دنیا میں بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک منفرد اور عالمی سطح پر قابلِ قدر قدم اٹھایا ہے۔ جیسے جیسے دنیا میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی رفتار بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے انٹرنیٹ کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے اور خاص طور پر بچے اس کی لپیٹ میں زیادہ آ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ان کی حفاظت ناگزیر ہو چکی ہے۔
عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 72 فیصد بچے کسی نہ کسی سائبر خطرے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ان خطرات میں بدنیتی پر مبنی حملے، مصنوعی ذہانت سے جڑے خدشات، ہراسانی اور دوسرے غیرمحفوظ عوامل شامل ہیں۔
انٹرنیٹ پر موجود مواد اور رابطے کا آزادانہ ماحول بچوں کے لیے ایک طرف علم کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف خطرات کی دنیا بھی ہے۔ سعودی عرب نے ان خطرات کے ادراک کے بعد فوری طور پر ایک قومی حکمت عملی وضع کی ہے جس کا مقصد سائبر اسپیس میں بچوں کو تحفظ دینا ہے۔
یہ فریم ورک سعودی وژن 2030 کا حصہ ہے، جو صرف اقتصادی ترقی تک محدود نہیں بلکہ انسانی تحفظ اور اقدار کے فروغ پر بھی مبنی ہے۔
اس اقدام کا آغاز ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں کیا گیا، جنہوں نے اکتوبر 2024 میں اس پر دستخط کیے۔ اس حکمت عملی کا ہدف یہ ہے کہ عالمی ڈیجیٹل دنیا میں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جہاں بچوں کو انٹرنیٹ سے جڑے خطرات سے بچایا جا سکے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سعودی عرب کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بچوں کے تحفظ سے متعلق پیش کی گئی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا۔
اس قرارداد کی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پیش کی گئی حکمت عملی بین الاقوامی برادری کے لیے قابل قبول ہے اور کئی ممالک نے اسے اپنے لیے ایک رہنما اصول مانا ہے۔
سعودی نمائندے عبدالمحسن بن خثیلہ نے بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا کہ یہ قرارداد صرف ایک قومی منصوبہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے بچوں کو سائبر دنیا کے نقصانات سے بچانے کے لیے ایک وسیع تر وژن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب دیگر ممالک کے ساتھ مل کر نہ صرف پالیسی سازی بلکہ تکنیکی تعاون اور آگاہی بڑھانے کے لیے بھی تیار ہے۔
سعودی تکنیکی ماہر ترکی المحمود کا کہنا ہے کہ یہ قدم اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ سعودی قیادت کو موجودہ اور مستقبل کے ڈیجیٹل خطرات کا بخوبی ادراک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے انٹرنیٹ اب روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے، اس لیے ان کی حفاظت ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔
انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں 18 سال سے کم عمر بچے انٹرنیٹ صارفین کا ایک بڑا حصہ بن چکے ہیں اور ہر سال چھوٹے بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
2022 میں شائع ہونے والی ایک بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ بچوں کے استحصال پر مبنی مواد والے ویب سائٹس کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ 2016 میں 3 لاکھ 35 ہزار رپورٹیں تھیں جو 2022 کے اختتام پر 3 لاکھ 75 ہزار سے تجاوز کر گئیں۔
ترکی المحمود اور بن خثیلہ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ آج کے دور میں انٹرنیٹ کے فوائد کے ساتھ ساتھ خطرات بھی بڑھے ہیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک بچوں کی آن لائن حفاظت کے لیے مربوط طریقہ کار اپنائیں اور ایک عالمی نیٹ ورک کے تحت مل کر کام کریں۔
اس قرارداد کی منظوری نے سعودی عرب کی پوزیشن کو بین الاقوامی سطح پر مزید مضبوط کیا ہے اور یہ مملکت کو بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت میں ایک رہنما ملک کے طور پر متعارف کرا رہی ہے۔