لاہور : لاہور ہائیکورٹ کے جی او آر-1 میں واقع ججز ریسٹ ہاؤس میں ایک معمولی سی بظاہر نظر آنے والی خلاف ورزی نے اندرونی احتساب کی فضا کو بھڑکا دیا ہے۔ 3 دسمبر 2024 کو پیش آنے والے واقعے میں ریسٹ ہاؤس کے سویٹ نمبر 6 میں موجود چار ملازمین کو ’معزز جج صاحبان‘ کے لیے مخصوص کراکری میں کھانا کھاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، جس پر داخلی انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
انکوائری میں بیئرر/ویٹر سموئیل سندھو، ڈسٹنگ قلی فیصل حیات، خاکروب شہزاد مسیح اور کاؤنٹر سٹاف محمد عمران کو ملزم نامزد کیا گیا۔ ان میں سے تین ملازمین نے کراکری کے استعمال کا اعتراف کیا، جس پر انہیں معمولی سزا یعنی ’سرزنش‘ دینے کی سفارش کی گئی۔
تاہم، معاملہ اس وقت سنگین رخ اختیار کر گیا جب ویٹر سموئیل سندھو پر نہ صرف کراکری استعمال کرنے بلکہ سینئر افسران سے بدتمیزی کا بھی الزام عائد کیا گیا۔ انکوائری افسر ایڈیشنل رجسٹرار (امتحانات) عثمان علی اعوان کی رپورٹ کے مطابق، سموئیل نے تحقیقات کے دوران "نامناسب، جارحانہ اور بے عزتی پر مبنی لہجہ” اختیار کیا، جو ہائیکورٹ کے رولز کے تحت برخاستگی کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ جہاں تین دیگر ملازمین کو معمولی سزا کی تجویز دی گئی، وہاں صرف سموئیل سندھو کو ’حتمی شوکاز نوٹس‘ جاری کر کے اس کی برطرفی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ حقوق انسانی کے چند حلقے اسے امتیازی رویہ قرار دیتے ہوئے سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا ایک مسیحی ملازم کے ساتھ انصاف کے تقاضے برابری سے پورے کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔
رپورٹ کے مطابق، سموئیل کے خلاف بدتمیزی کے الزام کی تائید نہ صرف گواہوں کے بیانات سے ہوئی بلکہ ویڈیو فوٹیج بھی اس پر روشنی ڈالتی ہے۔ اسے 11 جولائی کو شوکاز نوٹس جاری کر کے دس دن میں جواب داخل کروانے کی ہدایت کی گئی ہے، بصورت دیگر ملازمت سے برخاستگی کی سزا خودبخود نافذ تصور کی جائے گی۔