اسرائیل نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے زیرقبضہ حدیدہ بندرگاہ پر پیر کے روز ایک مہلک فضائی حملہ کیا، جو ایک ماہ کے اندر اس نوعیت کا دوسرا بڑا حملہ ہے۔ اس اقدام نے خطے میں کشیدگی کے شعلوں کو مزید بھڑکا دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ایک ممکنہ علاقائی جنگ کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب حوثیوں نے اسرائیل کے خلاف میزائل اور ڈرون حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا، جسے وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار قرار دیتے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر دفاع، یوآف گیلنٹ، نے دعویٰ کیا کہ "حدیدہ کی بندرگاہ پر دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والے انفراسٹرکچر کو تباہ کیا گیا ہے، اور یہ کاروائی حوثیوں کو ایران سے آنے والی اسلحہ سپلائی سے محروم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
ایک حوثی سکیورٹی اہلکار نے تصدیق کی کہ بمباری میں بندرگاہ کا وہ حصہ تباہ ہو گیا جو گزشتہ حملوں کے بعد بڑی مشکل سے بحال کیا گیا تھا۔
حوثی باغیوں نے حالیہ ہفتوں میں بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں۔ ان کا نشانہ وہ تجارتی جہاز بنتے ہیں جن پر وہ اسرائیل سے منسلک ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ان حملوں نے بین الاقوامی شپنگ اور توانائی کی راہداریوں کے لیے شدید خطرات پیدا کر دیے ہیں۔
7 جولائی کو ہونے والے ایک اسرائیلی حملے میں وہ مقام بھی نشانہ بنایا گیا جہاں گلیکسی لیڈر نامی کارگو جہاز کھڑا تھا، جو نومبر 2023 میں حوثیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس جہاز پر ریڈار نصب تھا جس سے اسرائیل کی نقل و حرکت مانیٹر کی جا رہی تھی۔
اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے خبردار کیا ہے کہ "یمن کا انجام وہی ہو گا جو تہران کا ہوا۔” یہ بیان اسرائیل کی جانب سے 13 جون کو ایران پر کیے گئے حملوں کے تناظر میں دیا گیا، جن میں ایران کی حساس جوہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایاگیا تھا۔
امریکہ نے بھی 22 جون کو ایران کے جوہری مراکز فردو، اصفہان اور نطنزپر حملے کیے، جو مغرب اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تناؤ کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ایک خلیجی سفارتکار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا اگر اسرائیل نے یمن یا ایران کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں، تو خطہ مکمل طور پر افراتفری کا شکار ہو سکتا ہ