غزہ :فلسطینی سرزمین غزہ میں انسانی بحران انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ الشفاء اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ کے مطابق، صرف تین دنوں میں 21 بچے غذائیت کی شدید قلت اور بھوک کے باعث جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ اموات غزہ کے مختلف اسپتالوں میں ریکارڈ کی گئیں، جن میں الشفاء (غزہ سٹی)، شہدائے الاقصیٰ (دیر البلح) اور ناصر اسپتال (خان یونس) شامل ہیں۔
ڈاکٹر ابو سلمیہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’غزہ کے فعال اسپتالوں میں ہر لمحے ایسے بچے اور بالغ افراد لائے جا رہے ہیں جو بھوک اور غذائی قلت کے شکار ہیں۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ ’’ہم ایسی ہولناک سطح کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں فاقے سے ہونے والی اموات کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔‘‘
اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اسرائیلی ناکہ بندی نے غزہ میں 20 لاکھ سے زائد افراد کو خوراک، دوا اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم کر رکھا ہے۔ شہر قحط زدہ علاقے میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں انسانی زندگی اب محض بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پیر کی شام شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’غزہ میں انسانوں کو زندہ رکھنے والے آخری سہارے بھی ٹوٹتے جا رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ غذائیت کی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
پیر کو برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا سمیت 24 سے زائد ممالک نے غزہ میں فوری جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور بلا رکاوٹ امداد کی فراہمی پر زور دیا۔
عالمی مطالبہ ہے کہ انسانیت کو بچانے کے لیے سیاسی فیصلے فوراً کیے جائیں۔
جولائی کے اوائل میں غزہ کا دورہ کرنے والے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ ’’یہ سب سے بدترین صورتِ حال ہے جو میں نے کبھی دیکھی۔‘‘ ان کے مطابق قحط کی یہ سطح مہلک ہے، اور وقت تیزی سے نکل رہا ہے۔