اٹلی کی وزیر اعظم جورجا میلونی نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو اُس کے قیام سے پہلے تسلیم کرنا "متضاد” ہو سکتا ہے۔ میلونی نے ہفتہ کو لا ریپبلکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بہت حمایت کرتی ہوں، لیکن اس سے پہلے اسے رسمی طور پر تسلیم کرنے کی میں مخالف ہوں۔” اُن کا مزید کہنا تھا، “اگر ایسی چیز کا کاغذی طور پر تسلیم کر لیا جائے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں، تو مسئلہ حل شدہ نظر آ سکتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔”
ملونی کے بقول یہ بے معنی اقدام حل کی بجائے مزید پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ حکمتِ عملی میں سب سے پہلے حقیقی قیام اور تصدیق ضروری ہے، پھر رسمی تسلیم کی جا سکتی ہے۔
اٹلی کے وزیر خارجہ نے ایک روز قبل کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کا تسلیم صرف اس صورت میں مناسب ہے جب وہ اسرائیل کی بھی قومی تسلیم کردہ ریاست کے طور پر اعتراف کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقی اصلاح تب ہوگی جب دونوں ریاستیں ایک دوسرے کو تسلیم کریں، تبھی معاملات شفاف اور متوازن ہوں گے۔
دوسری جانب جرمن حکومت کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ برلن عارضی طور پر فلسطینی ریاست کا تسلیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ اب ان کی اولین ترجیح "دو ریاستی حل کے حصول کے لیے دیرینہ رہ جانے والی پیش رفت کو آگے بڑھانا” ہے، جو خطے میں دیرپا امن کے لیے ناگزیر ہے۔
اس پس منظر میں، فرانس کے اعلان نے بھی کشیدگی میں اضافہ کیا تھا جب اس نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس اقدام پر اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی، خاص طور پر غزہ میں جاری جنگ اور حماس کے ساتھ جاری تنازع کے دوران۔
یہ تمام بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ علاقائی اور عالمی سطح پر صورتحال انتہائی نازک ہے، اور ایک جانب ضروری ہے کہ فلسطینی ریاست کا ادارہ وجود میں آئے، تو دوسری جانب یہ بھی واضح ہو کہ اس کا بین الاقوامی تسلیم مکمل اور متوازن ہونا چاہیے۔
میلونی کا موقف یہ بتاتا ہے کہ ابتدا میں صرف کاغذی یا بیوروکریٹک تسلیم کی بجائے بنیادی سیاسی اور عملی قیام پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ طویل المعیاد امن، معاہدات اور حقیقی سفارتی تعلقات کے لیے پہلا مرحلہ فلسطینی ریاست کا قیام ہونا چاہیے، نہ کہ صرف اس کا سرکاری اعلان۔