بیروت:چالیس سال قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد، فلسطین نواز لبنانی جنگجو جارج ابراہیم عبداللہ گزشتہ روز فرانس سے رہائی کے بعد اپنے آبائی وطن لبنان پہنچ گئے۔ ان کا استقبال کسی قومی ہیرو کی طرح کیا گیا، جہاں ان کے خاندان، سیاسی کارکنوں اور عوام نے جذباتی مناظر کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا۔
74 سالہ عبداللہ کو جنوب مغربی فرانس کی لانیمازان جیل سے سورج نکلنے کے ساتھ ہی رہا کیا گیا۔ چند گھنٹوں بعد، ایک طیارے کے ذریعے وہ بیروت ایئرپورٹ پہنچے، جہاں انہیں وی آئی پی لاؤنج میں خوش آمدید کہا گیا۔ وہاں سے وہ شمالی لبنان میں واقع اپنے آبائی گاؤں کوبیات روانہ ہوئے، جہاں عوامی ہجوم ان کے منتظر تھا۔
کوبیات میں عبداللہ کی واپسی کو تاریخی لمحہ قرار دیا جا رہا ہے۔ خواتین، بچے اور مرد ہاتھوں میں جھنڈے اٹھائے ہوئے، نعرے لگاتے ہوئے ان کا استقبال کر رہے تھے۔ ایک مقامی رہائشی کلاڈیٹ تانوس نے جذباتی انداز میں کہا
وہ 41 سال قید میں رہے، کوئی اور ہوتا تو شاید پاگل ہو چکا ہوتا، لیکن وہ ثابت قدم لوٹے ہیں۔
رہائی کے بعد اپنے پہلے عوامی خطاب میں جارج عبداللہ نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا:
فلسطین کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں، جب کہ کروڑوں عرب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزاحمت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "یہ جدوجہد رکنے والی نہیں، بلکہ اسے تیز تر کرنا ہوگا۔
جارج عبداللہ کو 1984 میں فرانس میں گرفتار کیا گیا تھا اور 1987 میں دو سفارت کاروں کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ان پر امریکی فوجی اتاشی چارلس رابرٹ رے اور اسرائیلی سفارت کار یعقوب بارسیمانٹوف کے قتل کا الزام تھا۔ تاہم کئی حلقے ان کے مقدمے کو سیاسی رنگ قرار دیتے ہیں۔
لبنانی پارلیمنٹ کے رکن جمی جبرور نے کہا
ہم ان کے نظریات سے اتفاق کریں یا نہ کریں، لیکن ان کی استقامت اور اصولی موقف کو سلام ہے