تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جاری سرحدی تنازعے میں جمعہ کو تیسری روز بھی شدید لڑائیاں جاری رہیں، جس میں 33 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان جھڑپوں میں تھائی فوج اور کمبوڈیائی فورسز کے علاوہ عام شہریوں بھی جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں۔
یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب کمبوڈین اور تھائی فورسز کے درمیان فضائی، زمینی اور توپ خانے سے حملے شروع ہوئے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے سینکڑوں شہری زخمی ہوئے۔ کمبوڈیا نے تھائی فوج پر الزام لگایا کہ وہ اس کے پورسات صوبے میں توپوں کے گولے داغ رہا ہے، جس سے کئی شہریوں کی جانیں گئیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس بحران پر فوری ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں کمبوڈیا نے غیر مشروط فوری فائر بندی کا مطالبہ کیا اور اس تنازعے کا پرامن حل نکالنے کی اپیل کی۔ اس اجلاس میں کمبوڈیائی سفیر نے سوال اٹھایا کہ کیا چھوٹے اور کمزور ملک کمبوڈیا کی طرف سے جنگ کی ابتدا ہو سکتی ہے؟
جھڑپوں کے نتیجے میں تھائی لینڈ کے سرحدی علاقوں سے 1,38,000 سے زائد افراد نکالے جا چکے ہیں، جب کہ کمبوڈیا سے بھی 35,000 سے زیادہ افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال دونوں ممالک کے معاشی، سماجی اور انسانی بحران میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیرِ اعظم نے خبردار کیا کہ اگر حالات مزید بگڑتے ہیں، تو یہ تنازعہ مکمل جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر پہلا حملہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں، تھائی لینڈ نے کمبوڈیا پر شہری انفراسٹرکچر، جیسے ہسپتال اور پیٹرول پمپ پر حملے کا الزام عائد کیا، جب کہ کمبوڈیا نے کلَسٹر بم استعمال کرنے کا دعویٰ کیا۔