غزہ:حماس کے ایک سینئر رہنما نے سی این این کو بتایا کہ امریکہ اور اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کے تبادلے اور اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کے شیڈول سے متعلق حماس کے تجویز کردہ منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، جس کے بعد مذاکرات میں رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں۔ دونوں ممالک نے حماس پر بد نیتی سے پیش آنےکا الزام لگایا، تاہم مذاکرات کے جاری رہنے کی توقع بھی ہے۔
عرب نژاد امریکیوں کی کمیٹی کے سربراہ بشارہ بحبح نے عرب میڈیاسےخصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ختم نہیں ہوئے بلکہ انہیں عارضی طور پر روکا گیا ہے، اور امکان ہے کہ آئندہ ہفتے دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ بحبح نے مزید کہا کہ حماس کو اب لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور عوامی سطح پر نیا منطقی موقف پیش کرنا ہوگا۔
حماس کے سینئر رہنما کے مطابق، غزہ میں ممکنہ جنگ بندی معاہدے میں اب صرف دو پیچیدہ نکات باقی ہیں
حماس نے مذاکرات کے دوران دونوں معاملات پر اپنی تجاویز پیش کی تھیں۔ پہلی تجویز میں، حماس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 10 زندہ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 2200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ ان میں سے 200 فلسطینی ایسے ہوں گے جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔
دوسری تجویز میں، حماس نے اسرائیل سے درخواست کی کہ وہ غزہ کے مخصوص علاقوں سے اپنی فوج واپس لے، خاص طور پر رفح اور شمال مشرقی غزہ سے۔
اسرائیل اور امریکہ کے مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کے بعد، حماس کے موقف میں مزید سختی دیکھنے کو آئی، جس کے بعد معاہدے کی امیدیں مدھم ہو گئی ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل نے امریکی فریم ورک پر رضامندی ظاہر کی تھی جس میں قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی شامل تھی، لیکن حماس نے اس دوران اپنے موقف میں مزید سختی اختیار کی۔
اسرائیل اور امریکہ کے مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کے بعد، مصر اور قطر نے اعلان کیا کہ وہ امریکی مدد کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اس کے باوجود، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حماس سے جان چھڑائی جائے اور اس معاملے کا خاتمہ کیا جائے۔