اسلام آباد: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (ٹی آئی پی) نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنیرک دواؤں کی پالیسی پر فوری اور مؤثر عملدرآمد یقینی بنائے، کیونکہ برانڈیڈ اور نان برانڈیڈ دواؤں کے درمیان قیمتوں کا فرق ہر سال عوام اور قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔
ٹی آئی پی نے وفاقی وزیر برائے قومی صحت سید مصطفیٰ کمال کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کی 2021ء کی ہدایات پر عمل نہیں ہو رہا، جس کے تحت ڈاکٹروں کو ہدایت دی گئی تھی کہ نسخے برانڈ نیم کے بجائے جنیرک ناموں سے لکھیں۔ خط میں بتایا گیا کہ بعض برانڈیڈ دواؤں کی قیمتیں ان کے جنیرک متبادل سے تین سے چار ہزار فیصد تک زیادہ ہیں۔
مثال کے طور پر، 300 ملی گرام کی اسپرین کی قیمتیں 47 روپے سے 300 روپے تک پائی گئی، جبکہ بعض برانڈز نے یہی دوا پانچ گنا مہنگی فروخت کی۔ پنجاب حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں اور مارکیٹ ریٹ میں بھی شدید فرق دیکھا گیا، جیسے 10 ملی گرام جنیرک دوا کی قیمت 3.07 روپے ہے، جبکہ برانڈ کی قیمت 93 روپے یعنی 3,029 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح، 20 ملی گرام کی جنیرک دوا 1.70 روپے میں دستیاب ہے، جبکہ برانڈیڈ دوا 67.85 روپے میں فروخت ہو رہی ہے، یعنی 3,991 فیصد زیادہ ہے
ٹی آئی پی نے کہا کہ جنیرک پالیسی پر عملدرآمد عوام کے طبی اخراجات میں 90 فیصد تک کمی لا سکتا ہے اور کم آمدنی والے طبقات کے لیے علاج سستا اور مساوی بنایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی مقامی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی جدت کو فروغ ملے گا۔ تنظیم نے وزیر صحت پر زور دیا کہ وہ سرکاری اور نجی شعبوں میں جنیرک نسخہ پالیسی پر عملدرآمد کرائیں، سرکاری دواؤں کی خریداری کے لیے کم قیمت پر خریداری کے طریقے اپنائیں اور موجودہ احکامات کی عدم تعمیل کی تحقیقات کریں۔