پاکستان کی حکومت نے نیویارک میں واقع تاریخی روزویلٹ ہوٹل کے جزوی حصص فروخت کرنے اور اس کے لیے نیا فنانشل ایڈوائزر تعینات کرنے کا عمل باضابطہ طور پر شروع کر دیا ہے۔ وزیرِ خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے اس ہفتے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ ٹرانزیکشن اسی سال مکمل کی جائے گی۔
یہ ہوٹل، جو مین ہٹن کے دل میں ایک صدی سے زیادہ پرانا اثاثہ ہے، پاکستان کے سب سے قیمتی بیرونی اثاثوں میں شمار ہوتا ہے۔ سن 2020 میں اس ہوٹل کو بند کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ وقفے وقفے سے کھلتا رہا، کبھی مہاجرین کے عارضی ٹھکانے کے طور پر بھی استعمال ہوا۔ حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ یہ ہوٹل مکمل طور پر فروخت نہیں کیا جائے گا بلکہ ایک مشترکہ منصوبہ (Joint Venture) کے ماڈل کے تحت نجی شراکت داری میں شامل کیا جائے گا تاکہ طویل مدتی آمدنی اور قدر میں اضافہ کیا جا سکے۔
گزشتہ ماہ عالمی رئیل اسٹیٹ کمپنی جونز لانگ لاسال (JLL) نے اس منصوبے سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ کمپنی نے یہ فیصلہ اس وجہ سے کیا کہ اسے خریدار کی جانب سے شراکت دار بننے میں دلچسپی تھی، جو ایک واضح مفاداتی ٹکراؤ (Conflict of Interest) بنتا تھا۔ خرم شہزاد کے مطابق، جے ایل ایل نے حتیٰ کہ اپنی بطور مشیر موصول ہونے والی ساری رقم واپس کرنے کی بھی پیشکش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہوٹل میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کئی عالمی پارٹیاں پہلے سے دلچسپی کا اظہار کر چکی ہیں۔
انگریزی اخبار "دی نیوز” کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر نجکاری کمیشن نئے فنانشل ایڈوائزر کی بھرتی کا عمل تیز کر بھی دے تو بھی کم از کم 18 ماہ درکار ہوں گے، جس کے دوران قومی خزانے پر قرضوں کی ادائیگی اور دیکھ بھال کی مد میں تقریباً 5 کروڑ ڈالر کا بوجھ پڑے گا۔ تاہم خرم شہزاد نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ جے ایل ایل نے پہلے ہی منصوبے کا مکمل ڈھانچہ تیار کر کے وفاقی کابینہ اور نجکاری کمیشن سے منظور کروا لیا تھا، اس لیے نئے مشیر کا کام صرف ترقیاتی شراکت دار تلاش کرنا ہوگا۔ اس لیے ڈیڑھ سال کی تاخیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ منصوبہ رواں سال مکمل کر لیا جائے گا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایک مالیاتی ادارے نے وزارتِ خزانہ سے باضابطہ خط کے ذریعے 14 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے قرض کے مستقبل کے بارے میں وضاحت مانگی، جو اس نے 2020 میں روزویلٹ ہوٹل کو دیا تھا۔ اس پر خرم شہزاد نے وضاحت دی کہ یہ قرض نیشنل بینک آف پاکستان نے جاری کیا تھا اور اس حوالے سے خط و کتابت ایک معمول کا عمل ہے، جو شراکت داری کے معاہدے پر دستخط ہوتے ہی حل ہو جائے گا۔
ماہرینِ معیشت نے جے ایل ایل کے دستبردار ہونے کو ایک وقتی جھٹکا تو قرار دیا لیکن اس بات پر اتفاق کیا کہ اس سے نجکاری کا عمل نہیں رکے گا۔ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی کے سربراہ ڈاکٹر علی سلمان نے کہا کہ نجکاری کے کئی ماڈلز ہیں اور براہِ راست فروخت کے بجائے مشترکہ منصوبے کے تحت شراکت داری ایک مثبت اور شفاف راستہ ہے، بشرطیکہ اسے پیشہ ورانہ انداز میں مکمل کیا جائے۔
اسلام آباد میں قائم پائیدار ترقی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ماہرِ معیشت ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ روزویلٹ ہوٹل جیسی قیمتی جائیداد کو اتنے عرصے میں نجی شعبے میں منتقل نہ کر پانا افسوسناک ہے۔ ان کے مطابق بہتر منصوبہ بندی اور شراکت داری کی حکمت عملی اختیار کر کے اس پراپرٹی کو زیادہ بہتر انداز میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔