ایران کے شمالی شہر ساری میں ایک ایسا سنگین اور ہولناک مقدمہ منظرِ عام پر آیا ہے جس نے نہ صرف عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ ملکی میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر بھی تہلکہ مچا دیا۔ یہ مقدمہ ایک ایسی خاتون کے گرد گھومتا ہے جو گزشتہ دو دہائیوں میں اپنے گیارہ شوہروں کی جان لینے کا اعتراف کر چکی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ ایک تازہ واقعے سے شروع ہوا جب ستمبر 2023 میں اس کے معمر شوہر کی پر اسرار موت نے شک کے بادل گہرے کر دیے۔
اسی شک کی بنیاد پر اس کی گرفتاری عمل میں آئی، اور بعد ازاں اس نے عدالت میں نہ صرف اس قتل کا بلکہ ماضی میں دس دیگر شوہروں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا اعتراف کر لیا۔
تحقیقات نے معاملے کو مزید سنگین بنا دیا۔ ریکارڈ سے پتا چلا کہ کلثوم اکبری نامی یہ خاتون 18 عارضی (متعہ) اور 19 مستقل شادیاں کر چکی تھی، اور حیران کن طور پر ان سب کے شوہر وفات پا چکے تھے۔ اس بات نے مقتولین کی تعداد 20 سے زائد کر دی، جبکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ فہرست مزید طویل ہو سکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ خاتون خود کو ایک نرم دل، خیال رکھنے والی اور خدمت گزار بیوی کے طور پر پیش کرتی تھی۔ وہ شادی سے قبل مرد کے مالی حالات اور جائیداد کا باریک بینی سے جائزہ لیتی، پھر شادی کے بعد ایک مہلک مگر انتہائی محتاط منصوبہ شروع کرتی۔ ابتدائی طور پر شوہر کو ذیابیطس یا بلڈ پریشر کی دوائیں معمولی مقدار میں کھانے یا مشروبات میں ملا کر دیتی، اور وقت کے ساتھ ساتھ خوراک میں اضافہ کرتی۔ علامات ظاہر ہونے پر وہ بظاہر ایک فکر مند بیوی کی طرح شوہر کو اسپتال لے جاتی، مگر خفیہ طور پر دوبارہ زہر دے کر حالت بگاڑ دیتی، یہاں تک کہ موت واقع ہو جاتی اور ڈاکٹروں کو کوئی غیر معمولی وجہ نظر نہ آتی۔
اس کے ابتدائی جرائم میں سے ایک میں اس نے صنعتی الکحل کا مہلک مرکب استعمال کیا اور پھر شکار کا گلا گھونٹ کر موت کی تصدیق کر دی۔ اس واردات کے بعد اسے اپنے شوہر کی زمین کے ایک بڑے رقبے کی وراثت مل گئی۔ یہ طریقہ کار برسوں کامیابی سے چلتا رہا کیونکہ تمام متاثرہ افراد عمر رسیدہ اور بیمار تھے، جن کی موت کو لوگ فطری سمجھ لیتے تھے۔
لیکن 2023 کے وسط میں غلام رضا بابائی نامی ایک بزرگ کی موت نے کہانی کا رخ بدل دیا۔ مرنے سے قبل غلام رضا نے اپنے قریبی لوگوں سے اپنی بیوی کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا تھا۔ یہ بات اس کے بھائی تک پہنچی، جس نے فوری طور پر پولیس میں باضابطہ شکایت درج کرا دی۔ اس شکایت نے ایک ایسے سلسلے کو جنم دیا جو بالآخر کلثوم اکبری کی گرفتاری اور اس کے طویل مجرمانہ ریکارڈ کے کھلنے پر منتج ہوا۔
عدالت میں ابتدائی سماعت کے دوران اس نے تمام الزامات سے انکار کیا، لیکن جب جج نے قتل کے طریقہ کار پر مبنی ویڈیو پیش کی تو وہ خاموش نہ رہ سکی اور جرم تسلیم کر لیا۔ اس موقع پر اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسے معلوم ہوتا کہ معاملہ اس حد تک پہنچ جائے گا تو وہ ایسا قدم نہ اٹھاتی۔ تاہم مقتولین کے ایک رشتہ دار نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ کسی وقتی جنون کا نتیجہ نہیں بلکہ انتہائی منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا۔
دفاعی وکیل نے عدالت سے اپنی مؤکلہ کا نفسیاتی معائنہ کرانے کی درخواست کی، مگر استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ جرائم مکمل ہوش و حواس میں، سوچ سمجھ کر اور احتیاط سے منتخب زہریلی دواؤں کے ذریعے کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ کسی ذہنی بیماری کا نہیں بلکہ دانستہ مجرمانہ رویے کا نتیجہ ہیں۔
اس مقدمے میں شکایت کنندگان کی تعداد 45 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں مقتولین کے ورثا اور قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔ متاثرہ خاندانوں میں سے چار کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے اور قاتلہ کے لیے انتقامی سزا کا مطالبہ کیا، جبکہ باقی خاندانوں سے توقع ہے کہ آئندہ سماعتوں میں اپنے مطالبات پیش کریں گے۔ ان لواحقین نے میڈیا سے اپیل کی کہ اس ہولناک سلسلۂ قتل کو تفریح یا طنز کا موضوع نہ بنایا جائے کیونکہ اس جرم نے حقیقی اور گہرے زخم چھوڑے ہیں۔