دنیا کے بیشتر ممالک جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تجارتی تعلقات میں تعطل کا شکار ہیں، وہیں پاکستان نے سفارتی مہارت سے اپنے پتے ایسے کھیلے کہ واشنگٹن کے ساتھ ایک بڑا تجارتی معاہدہ طے پا گیا۔ اس کامیابی نے پاکستان کو اُن چند ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا ہے جنہوں نے کسی بڑی رکاوٹ کے بغیر امریکا سے ڈیل مکمل کی، جبکہ بھارت، سوئٹزرلینڈ اور برازیل جیسے ممالک ناکام رہے۔
بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق اس پیش رفت کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب رواں سال کے اوائل میں پاک-بھارت کشیدگی عروج پر تھی، میزائل اور ڈرون حملوں کے تبادلے تک نوبت پہنچ گئی تھی۔ عین اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ثالثی کا اعلان کیا، جس کا پاکستان نے خیر مقدم کیا لیکن بھارت نے اسے صاف مسترد کر دیا۔ نتیجتاً بھارت کے واشنگٹن سے تعلقات میں سرد مہری آتی گئی، جبکہ اسلام آباد نے اس موقع کو بہتر تعلقات کے لیے استعمال کیا۔
پاکستان کے پاس سونے اور تانبے کے دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ ذخائر میں سے کچھ موجود ہیں، جس نے امریکی دلچسپی بڑھائی۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ امریکا، یوکرین کی طرز پر معدنی وسائل کا معاہدہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک پوسٹ میں پاکستان کے وسیع تیل کے ذخائر کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنے کا عندیہ بھی دیا۔
بلوم برگ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کرپٹو کرنسی نے تعلقات میں اہم کردار ادا کیا۔ ٹرمپ کی حمایت یافتہ کمپنی "ورلڈ لبرٹی فائنانشل” کے نمائندے پاک-بھارت کشیدگی کے دوران اسلام آباد پہنچے اور پاکستان کے ساتھ ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ کی شراکت داری کا اعلان کیا۔
ان تمام پیش رفت کا نقطہ عروج اُس وقت آیا جب پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ کچھ ہی عرصے بعد اسلام آباد نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ تبدیلی اس لیے بھی نمایاں ہے کیونکہ بائیڈن دور میں پاکستان اور امریکا کے اعلیٰ سطحی روابط نایاب تھے، جبکہ بھارت کو طویل عرصے تک چین کے خلاف ایک کلیدی اتحادی سمجھا جاتا رہا۔ اب صورتحال بدل چکی ہے: اسلام آباد میں اس بات پر اطمینان پایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات نہ صرف مثبت سمت میں بڑھ رہے ہیں بلکہ بھارت اس وقت دباؤ میں ہے۔