فروری 2025 میں اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک ایگزیکٹیو آرڈر نے پاکستان میں جاری امریکی امدادی منصوبوں پر اچانک بریک لگا دی۔
اس حکم کے تحت یو ایس ایڈ کے تحت چلنے والے تقریباً 84 کروڑ 50 لاکھ ڈالر مالیت کے 39 منصوبے فوراً معطل کر دیے گئے۔ یہ منصوبے مختلف شعبوں جیسے تعلیم، توانائی، زراعت اور گورننس میں جاری تھے اور کئی سالوں سے پاکستان میں ترقیاتی کاموں کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ اچانک اس تعطل نے نہ صرف کئی جاری منصوبوں کو ادھورا چھوڑ دیا بلکہ ان سے مستفید ہونے والے ہزاروں طلبہ، کسان، مریض اور عام شہری بھی غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔
تاہم یہ صورتحال طویل عرصے تک برقرار نہ رہ سکی۔ پاکستانی حکام نے فوری طور پر اس معاملے کو سفارتی سطح پر اٹھایا اور اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے کے ساتھ کئی مرحلوں میں مذاکرات شروع کیے۔ ان مذاکرات کا مقصد ان منصوبوں کی کم از کم جزوی بحالی تھا تاکہ ان سے جڑے سب سے اہم اور ضروری پروگرام متاثر نہ ہوں۔ طویل بات چیت کے بعد آخرکار دو اہم پروگراموں کی بحالی پر اتفاق ہو گیا، مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کی نگرانی اور شفافیت کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ سخت نظام وضع کیا جائے گا۔
ان دو بحال ہونے والے منصوبوں میں پہلا ہے نیڈ بیسڈ میرٹ اسکالرشپ پروگرام (فیز II) جو پاکستان کے ذہین مگر مالی مشکلات کے شکار طلبہ کے لیے زندگی بدل دینے والی ایک سہولت سمجھا جاتا ہے۔ یہ اسکالرشپ نہ صرف ٹیوشن فیس بلکہ ہاسٹل کا کرایہ، کتابوں کی خریداری اور دیگر ضروری اخراجات کا مکمل بوجھ اٹھاتی ہے۔
اس پروگرام کا انتظام ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے کیا جاتا ہے اور اس کا خاص زور دیہی علاقوں کے طلبہ، خواتین اور کم آمدنی والے گھرانوں پر ہے۔ بحالی کے بعد اس پروگرام سے ہزاروں طلبہ کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے، جن میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ شامل ہوں گے۔
آزاد کشمیر کے ضلع باغ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم عمر عالم (فرضی نام) اس اسکالرشپ کے تحت گزشتہ دو سال سے اسلام آباد کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔
جب انہیں 2025 کے آغاز میں یہ خبر ملی کہ پروگرام معطل ہو چکا ہے تو وہ سخت مایوس ہو گئے کیونکہ ان کے لیے مفت تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا تقریباً ناممکن لگ رہا تھا۔ مگر حالیہ بحالی کے اعلان نے انہیں نئی امید دے دی۔ عمر کا کہنا ہے کہ اب وہ پُراعتماد ہیں کہ وہ اپنی ڈگری مکمل کر سکیں گے اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں گے۔
دوسرا پروگرام جو بحال ہوا ہے، وہ ہے سابقہ فاٹا (ضم شدہ قبائلی اضلاع) کا انفراسٹرکچر پروگرام۔ اس کا مقصد دہشت گردی اور بدامنی سے متاثرہ ان علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی تعمیر اور بحالی تھا۔ اس کے تحت سڑکیں، پل، پانی کی فراہمی کے منصوبے، سکول، طبی مراکز اور دیگر عوامی سہولتیں فراہم کی جانی تھیں۔
یہ منصوبے صرف انفراسٹرکچر کی بہتری تک محدود نہیں تھے بلکہ ان کا مقصد مقامی معیشت کو فعال بنانا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور لوگوں کو ایک پُرامن اور خوشحال زندگی کی طرف واپس لانا تھا۔ اس پروگرام کی بحالی کا مطلب ہے کہ نئے تعمیراتی منصوبے دوبارہ شروع ہوں گے اور ان سے ہزاروں خاندان مستفید ہوں گے۔
یو ایس ایڈ کی فنڈنگ کے تعطل سے پہلے پاکستان میں امریکی امداد کئی مختلف اور اہم شعبوں میں اثر انداز ہو رہی تھی۔ تعلیم کے میدان میں صرف نیڈ بیسڈ اسکالرشپ ہی نہیں بلکہ سرکاری اسکولوں کے لیے کتابوں کی فراہمی، اساتذہ کی تربیت اور خواندگی بڑھانے کے منصوبے بھی شامل تھے۔ صحت کے شعبے میں زچہ و بچہ کی نگہداشت، خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات، اور ویکسینیشن مہمات جاری تھیں۔ ان منصوبوں نے خاص طور پر دور دراز علاقوں میں شرحِ اموات کم کرنے اور علاج معالجے کی سہولیات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
معاشی ترقی کے لیے یو ایس ایڈ نے زراعت میں جدت لانے، کسانوں کو جدید تربیت دینے، مارکیٹ تک ان کی رسائی بہتر بنانے اور خواتین و نوجوانوں کے لیے چھوٹے کاروبار کے منصوبے شروع کیے۔ توانائی کے شعبے میں تربیلا اور دیگر ہائیڈرو منصوبوں کی اپ گریڈیشن، بجلی کی ترسیل میں بہتری اور لائن لاسز کم کرنے پر کام کیا گیا۔ اس کے علاوہ جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے الیکشن کمیشن، بلدیاتی حکومتوں اور عدالتی اصلاحات کے منصوبے بھی چل رہے تھے۔
سابقہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں یو ایس ایڈ کی جانب سے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے بڑے منصوبے جاری تھے، جن میں سڑکوں کی تعمیر، سکولوں اور صحت مراکز کا قیام شامل تھا۔ یہ تمام اقدامات اس مقصد کے تحت کیے جا رہے تھے کہ متاثرہ علاقے ترقی کی راہ پر گامزن ہوں اور لوگوں کو بہتر معیار زندگی مل سکے۔
اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے نے ان منصوبوں کو سخت دھچکا پہنچایا، مگر پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ مذاکرات نے کم از کم ان دو اہم پروگراموں کو نئی زندگی دے دی ہے۔
اب ان منصوبوں کو پہلے سے زیادہ محتاط نگرانی، شفاف فنڈز کے استعمال، اور واضح اہداف کے ساتھ دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے تاکہ ان کا فائدہ براہِ راست مستحق افراد تک پہنچ سکے اور کسی قسم کی بدعنوانی یا بے ضابطگی کا امکان نہ رہے۔