برلن :جرمن چانسلر فریڈرک مرز نےگزشتہ روز ایک انٹرویو میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا، جسے غزہ میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی فوجی کارروائیوں کے پس منظر میں اٹھایا گیا ہے۔ مرز کے مطابق، "ہم اس تنازعہ میں ہتھیار فراہم نہیں کر سکتے جو اب صرف فوجی ذرائع تک محدود ہو چکا ہے۔ ہم صرف سفارتی مدد فراہم کرنا چاہتے ہیں اور یہی ہمارا کردار ہے۔
جرمنی کے لیے یہ فیصلہ نہ صرف ایک اخلاقی اقدام ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخی ذمہ داری اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے توازن کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ غزہ میں اسرائیل کے فوجی آپریشنز میں تیزی کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران اور شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والی صورتحال نے جرمن قیادت کو اس قدم کے لیے مجبور کیا۔
چانسلر مرز نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کا پھیلاؤ لاکھوں شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اور ایسا کرنے کے لیے پورے شہر کو خالی کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا، یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم ایسا نہیں کریں گے اور میں ایسا نہیں کروں گا۔”
اس فیصلے کے پیچھے غزہ میں اس تنازعہ کے انسانی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے جرمنی کی جانب سے ایک تاریخی اور اخلاقی موقف اختیار کیا گیا ہے۔
اگرچہ جرمنی نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے باوجود اس کی اسرائیل پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ مرز نے کہا، جرمنی گزشتہ 80 سالوں سے اسرائیل کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔ اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ "Staatsraison” (ریاستی مفاد) کہلائی جانے والی پالیسی ہے، جو نازی دور میں ہونے والے ہولوکاسٹ کے بعد سے جرمنی کا ایک بنیادی اصول ہے، اور اس کے تحت جرمنی ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
جرمنی کا فیصلہ نہ صرف ایک اخلاقی اقدام تھا، بلکہ ایک سیاسی اور سفارتی نقطہ نظر سے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ امریکہ کے بعد، جرمنی اسرائیل کو ہتھیاروں کا دوسرا بڑا فراہم کنندہ ہے اور طویل عرصے سے اسرائیل کا سب سے مضبوط حامی رہا ہے، خاص طور پر ہولوکاسٹ کے بعد کے تاریخی جرم کے پیش نظر۔
جرمنی کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کے فیصلے نے عالمی برادری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے، جو غزہ میں جاری انسانی بحران کے بارے میں بڑھتی تشویش کا شکار ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے جرمنی نے اسرائیل کے اقدامات پر ایک سخت موقف اختیار کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم رکھنے کے لیے سفارتی تعلقات کا دروازہ کھلا رکھے گا۔