لندن میں مقیم ایک پاکستانی نژاد طالبہ مہنور چیمہ نے دنیا بھر میں سب کو حیران کر دیا ہے۔ صرف 18 برس کی عمر میں اس باصلاحیت لڑکی نے تعلیمی میدان میں وہ ریکارڈ قائم کیے ہیں جو آج تک کسی کے تصور میں بھی نہ تھے۔
مہنور کا تعلق لاہور کے ایک علمی اور باوقار گھرانے سے ہے۔ ان کے والد بیرسٹر عثمان چیمہ اور والدہ طیّبہ چیمہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 2006 میں برطانیہ منتقل ہوئے۔
والد نے لنکنز اِن (Lincoln’s Inn) سے تعلیم حاصل کی جبکہ والدہ نے ایس او اے ایس (SOAS) یونیورسٹی آف لندن سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ دونوں میاں بیوی نے یہ قربانی اس لیے دی کہ ان کے بچے بہتر مستقبل اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ مہنور خود بھی اپنے ہر انٹرویو میں یہ اعتراف کرتی ہیں کہ یہ کامیابی صرف ان کی نہیں بلکہ اصل کارنامہ ان کے والدین کا ہے جنہوں نے وطن چھوڑا تاکہ وہ اپنی بیٹی کو زیادہ مواقع دے سکیں۔
تعلیم کے میدان میں مہنور نے ایک نہیں بلکہ کئی عالمی ریکارڈ قائم کیے۔ سب سے اہم ریکارڈ یہ ہے کہ انہوں نے بیک وقت 24 اے لیول مضامین (A-Levels) میں شاندار گریڈز حاصل کیے۔
یہ کارنامہ کسی اور طالب علم نے اب تک سرانجام نہیں دیا۔ مزید یہ کہ انہوں نے ایکسٹینڈڈ پراجیکٹ کوالیفکیشن (EPQ) بھی مکمل کی، اور ان سب امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔
ان کے دوسرے ریکارڈ کے مطابق، مہنور نے اے لیول میں سب سے زیادہ A اور A گریڈز حاصل کیے۔ انہوں نے مجموعی طور پر 19 اعلیٰ ترین گریڈز حاصل کر کے یہ اعزاز اپنے نام کیا۔
تیسرا بڑا ریکارڈ ان کی مجموعی کامیابیوں پر مشتمل ہے۔ اے لیول میں 11 A گریڈز اور اس سے پہلے جی سی ایس ای (GCSE) یا او لیول میں 34 A گریڈز شامل کرکے ان کا کل مجموعہ 45 بنتا ہے۔ یہ دنیا میں کسی بھی طالب علم کے سب سے زیادہ A گریڈز ہیں جو سیکنڈری ایجوکیشن کی تاریخ میں ریکارڈ کے طور پر درج ہوگئے ہیں۔
مہنور کے چوتھے ریکارڈ کے مطابق، وہ سب سے زیادہ مضامین میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی طالبہ ہیں۔ ان کے کل مضامین کی تعداد 58 ہے جن میں 34 جی سی ایس ای اور 24 اے لیول شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 2023 میں بھی مہنور نے 34 جی سی ایس ای مضامین پاس کیے تھے جن میں سے 17 صرف دسویں جماعت میں ہی A گریڈز کے ساتھ پاس کیے گئے۔ یہی نہیں بلکہ ان کامیابیوں نے انہیں پانچویں اور چھٹے عالمی ریکارڈ کا بھی حق دار بنایا۔
مہنور نے صرف کتابی تعلیم پر ہی توجہ نہیں دی بلکہ وہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی ہیں اور ہفتے میں ایک دن اسپتال میں رضاکارانہ خدمات انجام دیتی ہیں۔
یہی نہیں بلکہ وہ اپنے خواب کی تعبیر بھی حاصل کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنے کا خواب دیکھتی تھیں اور اب اکتوبر میں وہ وہاں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے جا رہی ہیں۔
اپنی بیٹی کی کامیابی پر مہنور کے والد نے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنی بیٹی کو "قوم کی بیٹی” کہتے ہیں، اور آج ان کی کامیابی نے 14 اگست کی خوشیوں کو دوگنا کر دیا ہے۔
یہ کہانی صرف ایک طالبہ کی نہیں بلکہ اس جذبے کی عکاس ہے جو تعلیم، محنت اور والدین کی قربانیوں سے جنم لیتا ہے۔ مہنور چیمہ آج دنیا کے سامنے ایک روشن مثال ہیں کہ پاکستانی نوجوان محنت اور لگن سے دنیا کے ہر میدان میں قیادت کرسکتے ہیں۔