سعودی عرب کی معاشرتی زندگی میں صدیوں سے مہمان نوازی اور میل جول کی علامت کافی اور چائے رہی ہیں۔ روایتی طور پر کافی کو ہمیشہ زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، لیکن اب ایک نیا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے: چائے کی واپسی۔ یہ واپسی محض پرانی روایت تک محدود نہیں رہی بلکہ جدید طرزِ زندگی اور بدلتے ذوق کے ساتھ ایک نئے انداز میں سامنے آ رہی ہے۔
سعودی معاشرے میں ماضی میں چائے کو زیادہ تر کھانے کے بعد، یا مہمانوں کی تواضع کے وقت چھوٹے شیشے کے پیالوں میں پیش کیا جاتا تھا۔ عام طور پر اس میں پودینہ یا زعفران جیسی خوشبودار جڑی بوٹیاں بھی شامل کی جاتیں اور یہ سب کچھ سعودی کافی کے ساتھ مل کر خاندانی محفلوں کو رونق بخشتا تھا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی سادہ سیاہ چائے میں پودینہ ڈال کر مہمانوں کو پیش کرنا ایک روایت رہا۔
تاہم آج کے دور میں چائے صرف روایتی انداز تک محدود نہیں رہی بلکہ اب یہ گرم اور ٹھنڈے دونوں انداز میں پسند کی جاتی ہے۔ سعودی نوجوان نسل کے لیے آئسڈ ٹی (iced tea) یعنی ٹھنڈی چائے ایک نئی اور مقبول ایجاد بن گئی ہے۔
ریاض اور جدہ جیسے بڑے شہروں میں اب تقریباً ہر کافی شاپ میں ٹھنڈی چائے دستیاب ہے۔ لوگ سفر میں ہوں یا دفتر میں، وہ سہولت کے ساتھ بوتل یا ٹیک اَے وے کپ میں چائے پینا پسند کرتے ہیں۔ اس تبدیلی نے چائے کو ایک نیا مقام دیا ہے۔
جدید ذائقوں میں برف والی سیاہ چائے میں لیموں کا اضافہ، سبز چائے میں ٹراپیکل فروٹ کا ذائقہ، اور ہبسکس چائے کو اسپارکلنگ واٹر اور لیموں کے ساتھ پیش کرنے کے طریقے شامل ہیں۔ کچھ لوگ بیری کے ساتھ ہبسکس آئسڈ ٹی کو پسند کرتے ہیں جبکہ گرمیوں میں لیموں، پودینہ اور ادرک کے ساتھ ٹھنڈی چائے خصوصی مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔
ڈریمی وژنز مارکیٹنگ ایجنسی کے پارٹنر عبدالعزیز العریفی کا کہنا ہے کہ پہلے لوگ صرف برانڈ کے نام کو دیکھتے تھے، لیکن اب چائے کے ذائقے اور پتے کے معیار پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ سعودی کمپنیاں خود بھی چائے کی سپلائی کر رہی ہیں اور اس میدان میں مقابلہ بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق آج چائے کا استعمال نہ صرف گھروں بلکہ دفاتر اور کیفے میں بھی نمایاں حد تک بڑھ گیا ہے۔
ڈریہ کی السمحانیہ ایریا کے ایک چائے خانے میں کام کرنے والے عامر احمد نے بتایا کہ عرب دنیا میں صدیوں سے چائے اور کافی دونوں کا کلچر رہا ہے، لیکن نئی نسل کے لیے ٹھنڈی چائے ایک مختلف ایجاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے چائے صرف گرم پیش کی جاتی تھی، مگر اب قہوہ یا کرک چائے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی شکل میں بھی پیش کی جا رہی ہے۔
ریاض کے رہائشی بدر حثال کے مطابق یہ تبدیلی غیر معمولی ہے کیونکہ اس نے چائے کو ایک نیا ذائقہ اور ایک نیا انداز دیا ہے۔ ان کے خیال میں آنے والے برسوں میں ٹھنڈی چائے مشروبات کی مارکیٹ میں اہم جگہ بنا لے گی۔
اسی طرح رنا الزمیل نے بتایا کہ ان کے خاندان میں چائے ہمیشہ ایک روایت کی صورت میں موجود رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ شام کے وقت اہل خانہ کا چائے کے گرد جمع ہونا ایک لازمی معمول تھا، چاہے وہ پودینہ والی چائے ہو یا سادہ سیاہ چائے، اکثر کیک یا بسکٹ کے ساتھ۔ ان کے مطابق اب وقت کے ساتھ ذائقوں میں جدت آئی ہے اور وہ ٹھنڈی چائے جیسے ہبسکس بیری یا آئسڈ جنجر ٹی کو بھی پسند کرتی ہیں، لیکن ہر بار چائے پینے سے پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
سعودی وزارتِ سیاحت کی ویب سائٹ "وزٹ سعودی” کے مطابق سعودی عرب دنیا کے اُن 20 بڑے ممالک میں شامل ہے جہاں چائے سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ اوسطاً ہر سعودی شہری سالانہ تقریباً 900 گرام چائے پیتا ہے۔