آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ایک ایسا علمی و ثقافتی پروگرام شروع کیا گیا ہے جو عربی زبان کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔ اس پروگرام کا انعقاد کنگ سلمان گلوبل اکیڈمی فار عربک لینگویج نے کیا ہے اور یہ اقدام عربی زبان کے عالمی فروغ کے سلسلے میں سعودی عرب کی مسلسل کوششوں کا تسلسل ہے۔
اس افتتاحی تقریب میں اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ الوشمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عربی زبان صرف ایک ذریعۂ ابلاغ نہیں بلکہ ایک وسیع تہذیبی ورثہ بھی ہے، جسے عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ اسی موقع پر آذربائیجان میں سعودی عرب کے سفیر عصام الجتیلی نے بھی اظہارِ خیال کیا اور بتایا کہ یہ پروگرام دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنے گا۔
اس ماہ بھر کے سلسلۂ پروگرام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ افراد جو عربی زبان کو مادری زبان کے طور پر نہیں بولتے، انہیں معیاری مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اس زبان کو بہتر انداز میں سیکھ سکیں۔ اس کے ذریعے نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ اور زبان سے دلچسپی رکھنے والے عام شائقین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
پروگرام میں مختلف سرگرمیاں رکھی گئی ہیں جن میں تعلیمی مقابلے، عملی تربیتی کورسز اور ایک خصوصی سائنسی سمپوزیم شامل ہیں۔ یہ سمپوزیم وسطی ایشیائی خطے میں عربی زبان کی تدریس کے امکانات اور درپیش مشکلات پر مرکوز ہوگا۔ اس علمی اجتماع میں آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور جارجیا کے ماہرین شریک ہو کر اپنے تجربات اور تحقیقی نکات پیش کریں گے۔
عربی زبان کے اس عالمی مہینے کی سرگرمیاں صرف باکو تک محدود نہیں رہیں بلکہ اس سے قبل اکیڈمی نے مختلف خطوں میں بھی اسی نوعیت کے پروگرام منعقد کیے ہیں۔ ان میں تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا، بھارت، چین، ازبکستان، فرانس، اسپین اور برازیل جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعے دنیا کے مختلف خطوں میں عربی زبان کی افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور مقامی تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا گیا ہے۔
یہ تمام کاوشیں دراصل سعودی وژن 2030 کے تحت جاری اس حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد سعودی عرب کو ایک عالمی ثقافتی اور علمی مرکز میں ڈھالنا ہے۔ عربی زبان کے فروغ کو اس وژن میں بنیادی حیثیت حاصل ہے تاکہ عالمی برادری میں اس زبان کی موجودگی اور اہمیت کو مزید نمایاں کیا جا سکے۔
باکو میں منعقدہ یہ پروگرام نہ صرف عربی زبان کے فروغ کا ذریعہ ہے بلکہ مختلف خطوں اور قوموں کے درمیان ثقافتی پل قائم کرنے کی ایک نئی کوشش بھی ہے۔ اس سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے برسوں میں عربی زبان کے سیکھنے اور پڑھانے کے مواقع مزید وسیع ہوں گے اور عالمی سطح پر اس کے اثرات زیادہ گہرے نظر آئیں گے۔