پاکستان کے بینکاری شعبے کے بارے میں عالمی ریٹنگ ایجنسی فِچ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں بہتر معاشی حالات اور کم ہوتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے مستقبل قریب میں بینکوں کے کاروباری حجم میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ ایجنسی کے مطابق حالیہ برسوں میں جس معاشی بے یقینی اور مہنگائی نے کاروبار کو مشکل بنایا ہوا تھا، اس کے بعد اب صورتحال بتدریج بہتر ہورہی ہے اور بینکنگ سیکٹر اس بہتری کے اثرات سمیٹنے کے لیے تیار ہے۔
فچ ریٹنگز نے واضح کیا کہ پاکستان کی معیشت کا استحکام دراصل اس وقت تیز ہوا جب ستمبر 2024 میں ملک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے سات ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج حاصل کیا۔ اس فیصلے نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کیا اور مالیاتی اداروں کو یہ اطمینان ملا کہ پاکستان اب اپنی معاشی سمت درست کرنے کے قریب ہے۔ اسی کے نتیجے میں کئی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کے کریڈٹ پروفائل کو بہتر قرار دیا اور قرض کی درجہ بندی میں بھی مثبت تبدیلی سامنے آئی۔
ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اپریل 2025 میں پاکستان کی طویل مدتی قرض کی درجہ بندی کو ’سی سی سی پلس‘ سے بڑھا کر ’بی مائنس / اسٹیبل‘ کرنے کے بعد ملک کے بینکوں کے لیے کاروباری سرگرمیوں کو وسعت دینے کے امکانات اور بھی مضبوط ہوئے ہیں۔ یہ تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ معیشت اب پہلے کی نسبت زیادہ پائیدار بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو ایک مشکل دور سے گزرنا پڑا، جہاں مہنگائی کی شرح غیر معمولی حد تک بلند رہی اور معیشت جمود کا شکار تھی۔ تاہم اب حقیقی شرح نمو میں بہتری کی امید ہے اور اندازہ ہے کہ 2024 میں 2.5 فیصد رہنے والی جی ڈی پی گروتھ 2027 تک بڑھ کر 3.5 فیصد تک جا سکتی ہے۔
مہنگائی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ مئی 2023 میں جب افراطِ زر 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، اس وقت حالات خاصے گھمبیر دکھائی دے رہے تھے، مگر جولائی 2025 تک یہ شرح گھٹ کر 4.1 فیصد تک آگئی ہے۔ فچ کو توقع ہے کہ پورے سال 2025 میں اوسط افراطِ زر تقریباً 5 فیصد کے لگ بھگ رہے گا جو ایک معتدل اور قابلِ برداشت سطح ہے۔
ایجنسی نے کہا کہ ملک میں پالیسی ریٹ کو مئی 2024 کے بعد آدھا کر کے 11 فیصد تک لانا، اور کرنسی کی قدر میں نسبتاً استحکام آنا، دونوں عوامل نے معاشی بحالی کے امکانات کو تقویت دی ہے۔ کرنسی کی اتار چڑھاؤ میں کمی اور کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس آنے کو بھی خوش آئند قرار دیا گیا۔
فچ ریٹنگز کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے شرح سود کم ہوتی جائے گی اور مجموعی معیشت زیادہ مستحکم ہوگی، ویسے ویسے نجی شعبے کو قرض لینے کی ترغیب ملے گی۔ اس عمل سے نہ صرف حکومتی سیکٹر پر انحصار کم ہوگا بلکہ بینکوں کو حقیقی معیشت کے ساتھ جڑنے کے مزید مواقع ملیں گے۔ تاہم ایجنسی نے خبردار کیا کہ چونکہ بینکوں کا ایک بڑا سرمایہ اب بھی حکومتی بانڈز اور ریاستی اداروں کو دیے گئے قرضوں میں بندھا ہوا ہے، اس لیے ان کی کریڈٹ ریٹنگ کا انحصار فی الحال ملکی اصلاحات کی رفتار اور حکومتی مالی پالیسی پر ہی رہے گا۔
فچ کے مطابق پاکستانی بینکوں نے پچھلے چند برسوں میں شدید مشکلات کے باوجود لچکدار نتائج دکھائے ہیں۔ 2023 کے اختتام پر جہاں نادہندہ قرضوں کی شرح 7.6 فیصد تھی، مارچ 2025 تک یہ گھٹ کر 7.1 فیصد پر آگئی ہے۔ یہ کمی بڑی حد تک اس حقیقت کی مرہونِ منت ہے کہ بلند مہنگائی کے باوجود قرضوں کے اجرا میں 26 فیصد کا اضافہ ہوا۔
بینکنگ سیکٹر کی کارکردگی کے دیگر پہلو بھی قابلِ ذکر ہیں۔ مثال کے طور پر ایکویٹی پر منافع 2023 میں 27 فیصد رہا تھا، جو 2025 کی پہلی سہ ماہی میں معمول پر آتے ہوئے 20 فیصد تک آگیا۔ اسی طرح کیپٹل ایڈی کوئسی (سرمایہ جاتی گنجائش) مارچ 2025 میں بڑھ کر 21 فیصد تک پہنچ گئی جو پچھلی دہائی کی سب سے زیادہ سطح ہے۔
ایجنسی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ بڑے پاکستانی بینک اب ایک زیادہ متوازن اور "نارمل” مالیاتی ماحول کی طرف منتقلی کے لیے اچھی پوزیشن میں ہیں۔ اگرچہ شرح سود میں کمی سے ان کے منافع پر کچھ اثر پڑ سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے پاس اتنی مضبوط بنیادیں موجود ہیں کہ وہ ان تبدیلیوں کو سنبھال سکیں۔ البتہ، ڈھانچہ جاتی چیلنجز جیسے سرکاری اداروں پر انحصار اور اصلاحات کی رفتار کا سست ہونا بدستور اہم رکاوٹیں ہیں۔
فچ ریٹنگز کا تجزیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستانی بینکاری شعبہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہورہا ہے جہاں ترقی کے نئے امکانات موجود ہیں۔ تاہم ان امکانات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں تسلسل ہو، اصلاحات کو ترجیح دی جائے اور بیرونی دباؤ کو مزید کم کرنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں۔