پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو 9 مئی کے دوران مختلف مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں میں کامیابی حاصل ہوئی، جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کی 8 مقدمات میں ضمانت منظور کر لی اور رہائی کا حکم دیا۔ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی، جس میں عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے درخواست کی کہ ان کے موکل کے خلاف 8 مختلف مقدمات میں اب تک چالان پیش نہیں کیا گیا۔ اس کے جواب میں، عدالت نے عمران خان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کی اور ان کی رہائی کے احکام جاری کیے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے زبانی فیصلے میں یہ بات واضح کی کہ عدالت کی ضمانت سے متعلق آبزرویشن ہمیشہ عبوری نوعیت کی ہوتی ہے، اور اس کا ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ضمانت کے فیصلے کو ٹرائل کورٹ پر چھوڑا جانا چاہیے، جہاں تمام ثبوت اور شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ ضمانت کا فیصلہ ہمیشہ عدالت کی ابتدائی آبزرویشن پر مبنی ہوتا ہے، اور اس کا مقصد صرف ملزم کی فوری رہائی یقینی بنانا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے دوران سماعت دو اہم سوالات اٹھائے جنہوں نے پورے کیس کی نوعیت کو ایک نئے زاویے سے پیش کیا۔ ان سوالات میں پہلی اہمیت یہ تھی کہ کیا ضمانت کے کیس میں حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ ماضی میں سازش کے الزامات پر سپریم کورٹ نے ملزمان کو ضمانت دی، کیا اس اصول کو موجودہ کیس پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں، اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ضمانت کے فیصلے میں عدالت کی آبزرویشن ہمیشہ عبوری نوعیت کی ہوتی ہے، جس کا ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ موجودہ کیس میں سوشل میڈیا پر سازش کے حوالے سے کچھ ٹھوس ثبوت موجود ہیں، جن میں واٹس ایپ میسجز، گواہان کے بیانات، اور فوٹوگریمیٹک ٹیسٹ شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام ثبوت اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف سازش کی گئی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں سازش سے متعلق ثبوت موجود ہیں، جن میں واٹس ایپ میسجز اور گواہان کے بیانات شامل ہیں۔ ان کے مطابق، ہائی کورٹ نے مختلف نوعیت کے ٹیسٹ کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن عمران خان نے جیل میں ان ٹیسٹس کی تعاون سے انکار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں جتنے بھی سازش سے متعلق مقدمات آئے ہیں، ان میں ضمانتیں منظور ہوئی ہیں، اس لیے اس کیس میں بھی تسلسل کے اصول کے تحت ضمانت منظور کی جائے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر سوال کیا کہ آیا آپ کے پاس ان ثبوتوں کے حوالے سے کوئی واضح شواہد موجود ہیں؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ موجودہ کیس میں سازش کے بارے میں سوشل میڈیا پر واضح اور مستند ثبوت موجود ہیں، لیکن چیف جسٹس نے یہ بھی تاکید کی کہ ان ثبوتوں کی جانچ ٹرائل کورٹ میں کی جائے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کسی بھی فائنڈنگ پر بات نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس موقع پر کہا کہ ضمانت کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے فائنڈنگ سے مختلف رکھا جائے کیونکہ اس سے ٹرائل متاثر ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ضروری ہے اور سپریم کورٹ کا کام صرف انصاف کی راہ ہموار کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضمانت کا فیصلہ عدالت کی ابتدائی آبزرویشن پر مبنی ہوتا ہے اور اس کا اثر ٹرائل پر نہیں پڑتا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے اس دوران یہ دعویٰ کیا کہ موجودہ کیس میں ملزم کے خلاف تمام ثبوتوں کی موجودگی کے باوجود، عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کیا جانا چاہیے۔ تاہم، چیف جسٹس نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے سازش سے متعلق جو فیصلے کیے ہیں، ان میں ہمیشہ ضمانتیں منظور کی گئی ہیں۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے سماعت کے دوران اعتراض اٹھایا کہ ان کے موکل کے خلاف 8 مقدمات میں اب تک کوئی چالان پیش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے عدالت میں یہ دلیل پیش کی کہ 3 ایف آئی آرز میں عمران خان کا نام شامل ہے، جب کہ 5 ایف آئی آرز میں ان کا نام نہیں ہے، اور اس وجہ سے ان کی ضمانت منظور کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ میں ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی گئی تھیں، تاہم سپریم کورٹ نے اس کے برعکس فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ عمران خان کی رہائی کے بعد ان کے
